Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 40
قَالَ رَبِّ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ قَدْ بَلَغَنِیَ الْكِبَرُ وَ امْرَاَتِیْ عَاقِرٌ١ؕ قَالَ كَذٰلِكَ اللّٰهُ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اَنّٰى : کہاں يَكُوْنُ : ہوگا لِيْ : میرے لیے غُلٰمٌ : لڑکا وَّقَدْ بَلَغَنِىَ : جبکہ مجھے پہنچ گیا الْكِبَرُ : بڑھاپا وَامْرَاَتِيْ : اور میری عورت عَاقِرٌ : بانجھ قَالَ : اس نے کہا كَذٰلِكَ : اسی طرح اللّٰهُ : اللہ يَفْعَلُ : کرتا ہے مَا يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے
وہ کہنے لگے کہ اے میرے رب کہاں سے ہوگا میرے لڑکا حالانکہ مجھے بڑھاپا پہنچ چکا ہے اور میری بیوی بانجھ ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اسی طرح اللہ کرتا ہے جو چاہے۔
(1) ابن جریر وابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ جب زکریا (علیہ السلام) نے آواز کو سنا تو ان کے پاس شیطان آیا اور کہنے لگا اے زکریا (علیہ السلام) یہ آواز جو تو نے سنی وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں تھی وہ تو شیطان کی طرف سے تھی تاکہ تجھ سے مذاق بنائے اگر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی تو تیری طرف وحی آتی جیسا کہ وحی آتی ہے تیری طرف اس کے علاوہ دوسرے کام کے لیے تو اس موقعہ پر ان کو شک ہوا تو اس پر فرمایا لفظ آیت ” قال رب انی یکون لی غلم “ یعنی کیسے میرے لئے بچہ ہوگا۔ (2) ابن جریر نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ ان کے پاس شیطان آیا اور اس نے ان پر ارادہ کیا کہ ان کو اپنے رب کی نعمت کو مکدر کر دے کہنے لگا کیا تو جانتا ہے کس نے تم کو آواز دی فرمایا ہاں مجھ کو میرے رب کے فرشتوں نے آواز دی کہنے لگا نہیں بلکہ وہ شیطان تھا اگر یہ تیرے رب کی طرف سے ہوتی تو اس کو تجھ پر مخفی رکھتا جیسا کہ تو نے مخفی رکھا اپنی آواز کو تو (اس پر) انہوں نے عرض کیا لفظ آیت ” رب اجعل لی ایۃ “۔ قولہ تعالیٰ : وامر اتی عاقر : (3) ابن جریر وابن ابی حاتم نے شعب الجبائی (رح) سے روایت کیا ہے کہ یحییٰ (علیہ السلام) کی والدہ کا نام اشیع تھا۔ قولہ تعالیٰ : قال کذلک اللہ یفعل ما یشاء : (4) ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” کذلک “ سے مراد ہے ھکذا یعنی اسی طرح اور ان کے قول میں لفظ آیت ” رب اجعل لی ایۃ “ سے مراد ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے رب ! اگر یہ آواز آپ کی طرف سے ہے تو میرے لیے کوئی نشانی بنا دیجئے۔ (5) ابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” رب اجعل لی ایۃ “ سے مراد ہے کہ (میری بیوی کو جب) حمل ہوجائے تو (اس کی نشانی مقرر فرما دیجئے) ۔ (6) عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ایتک الا تکلم الناس ثلثۃ ایام “ سے مراد ہے کہ اس بات کی ان کو سزا دی گئی کہ فرشتوں نے جب ان سے براہ راست گفتگو کی تھی اور یحییٰ (علیہ السلام) کی خوشخبری دی تھی تو فرشتوں کی کلام کے بعد انہوں نے اس کی نشانی کے بارے میں پوچھ لیا تو اس پر ان کی زبان کو پکڑ لیا (تاکہ بات نہ کرسکیں) ۔ (7) ابن ابی حاتم نے ابو عبد الرحمن سلمی (رح) سے روایت کیا ہے کہ آپ کی زبان کو بغیر بیماری سے بولنے سے روک دیا گیا۔ (8) سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ آپ کی زبان کو تین دن اور تین راتیں بولنے سے روک دیا گیا آپ کی زبان پھول گئی تھی کہ اس سے آپ کا منہ بھر گیا۔ (9) ابن جریر وابن ابی حاتم نے جبیر بن نفیر (رح) سے روایت کیا ہے اور ان کو کلام سے روک دیا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے تین دن کے بعد ان کی زبان کو کھول دیا۔ (10) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” الا رمزا “ سے مراد ہے ہونٹوں سے اشارہ کیا۔ (11) عبد بن حمید وابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” الا رمزا “ سے مراد ہے کہ ان کا اشارہ سے مراد ہے کہ ان کا اشارہ ان کے ہونٹوں سے تھا۔ (12) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” الا رمزا “ سے مراد اشارہ ہے۔ (13) ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” الا رمزا “ سے مراد ہاتھ یا سر سے اشارہ کرنا اور بات نہ کرنا۔ (14) ابن جریر نے عوفی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رمزیہ ہے کہ اپنی زبان کو پکڑ لے اور وہ لوگوں سے ہاتھ کے ساتھ کلام کرے (یعنی اشارہ سے بات کرے) ۔ (15) طستی نے اپنے مسائل میں ابن الانباری نے الوقف والا بتداء میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نافع بن ازرق (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول ” الا رمزا “ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا ہاتھ سے اشارہ کرنا اور سر سے اشارہ کرنا عرض کیا کیا عرب کے لوگ اس معنی سے واقف ہیں فرمایا ہاں تو نے شاعر کا قول نہیں سنا : ما فی السماء من الرحمن مر تمز الا الیہ وما فی الارض من وزر ترجمہ : آسمان میں رحمن کو چھوڑ کر کوئی ایسی جگہ نہیں (جس کی طرف اشارہ کیا جائے) اور نہ ہی زمین میں کوئی جائے پناہ ہے۔ (16) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم وابو نعیم نے محمد بن کعب القرظی (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ کسی کو ذکر کے ترک کرنے کی رخصت فرماتے تو زکریا (علیہ السلام) کے لیے رخصت فرماتے (مگر فرمایا) لفظ آیت ” ایتک الا تکلم الناس ثلثۃ ایام الا رمزا واذ کر ربک کثیرا “ اور اگر کسی کے لیے ذکر کے ترک کرنے کے رخصت فرماتے تو ان لوگوں کو رخصت فرماتے جو اللہ کے راستہ میں قتال کرتے ہیں (بلکہ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا اذا لقیتم فءۃ فاثبتوا واذکروا اللہ کثیرا “ (یعنی اے ایمان والو ! جب تم دشمن سے مقابلہ کرو تو ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کو بہت یاد کرو) ۔
Top