Tafseer-e-Baghwi - An-Najm : 12
اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰى مَا یَرٰى
اَفَتُمٰرُوْنَهٗ : کیا پھر تم جھگڑتے ہو اس سے عَلٰي مَا يَرٰى : اوپر اس کے جو وہ دیکھتا ہے
جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے اس کو جھوٹ نہ جانا
11 ۔” ماکذب الفئواد مارای “ ابو جعفر نے ماکذب کو ذال کی شد کے ساتھ پڑھا ہے یعنی محمد ﷺ کے دل نے اس کو نہیں جھٹلایا جو آپ (علیہ السلام) نے اپنی آنکھ سے اس رات میں دیکھا بلکہ اس کی تصدیق کی اور اس کو حق جانا اور دیگر حضرات نے تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے یعنی محمد ﷺ نے جو کچھ دیکھا دل سے اس کو جھوٹ نہیں کہا بلکہ سچ کہا۔ کہا جاتا ہے ” کذبہ “ جب اس کو جھوٹ کہے اور صدقہ جب اس کو سچ کہے۔ اس کا مجاز ” ماکذب الفواد فیما رای “ ہے اور ” الذی راہ “ میں اختلاف ہوا ہے ایک قوم نے کہا ہے کہ جبرئیل (علیہ السلام) کو دیکھا اور یہی ابن مسعود ؓ اور عائشہ صدیقہ ؓ کا قول ہے۔ حضرت عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا ” ما کذب الفوادمارای “ جبرئیل (علیہ السلام) کو دیکھا ان کو چھ سو 600 پر تھے اور دیگر حضرات نے کہا ہے کہ ” ماراہ “ سے اللہ تعالیٰ مراد ہے۔ پھر ” رویۃ “ کے معنی میں اختلاف ہوا ہے۔ ان میں سے بعض نے کہا ان کی بصارت کو دل میں کردیا۔ پس آپ (علیہ السلام) نے دل سے دیکھا اور یہی ابن عباس ؓ کا قول ہے۔ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ” ماکذب الفواد ماری ولقد راہ نزلۃ اخریٰ “ آپ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل کے ساتھ دو مرتبہ دیکھا ہے اور ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ آپ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور یہ انس ؓ ، حسن اور عکرمہ رحمہما اللہ کا قول ہے۔ ان حضرات نے فرمایا ہے کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے اور عکرمہ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو خلیل بنانے کے لئے چن لیا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو کلام کے لئے چن لیا اور محمد ﷺ کو ” رئویۃ “ کے لئے چن لیا اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب کو نہیں دیکھا اور آیت جبرئیل (علیہ السلام) کی رئویت پر محمول کیا ہے۔ مسروق (رح) کہتے ہیں میں نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو کہا اے امی جان ! ؓ کیا محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ تو آپ ؓ نے فرمایا تونے ایسی بات کی ہے جس کی وجہ سے میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے ہیں تو کہا تین چیزوں سے جو تجھے ان کے بارے میں بیان کرے تو اس نے جھوٹ بولا، جو تجھے بیان کرے کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو اس نے جھوٹ بولا۔ پھر آیت پڑھی ” لا تدرکہ الابصار وھو یدرک الابصار وھو اللطیف الخبیر “… ” وما کان لبشر ان یکلمہ اللہ الاوحیا اومن وراء حجاب “ اور جو تجھے بیان کرے محمد ﷺ جانتے ہیں جو آئندہ کل میں ہوگا تو اس نے جھوٹ بولا۔ پھر آیت پڑھی ” وما تدری نفس ماذاتکسب غدا “ اور جو تجھے بیان کرے کہ محمد ﷺ نے کچھ چھپایا تھا تو اس نے جھوٹ بولا، پھر آیت پڑھی۔ ” یایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک “ لیکن جبرئیل (علیہ السلام) کو ان کی اصلی صورت میں دو مرتبہ دیکھا۔ عبداللہ بن شقیق نے بھی حضرت ابوذر ؓ سے روایت کی ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کیا آپ (علیہ السلام) نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا نور ہیں، کیسے میں اس کو دیکھ سکتا ہوں۔
Top