Mazhar-ul-Quran - An-Najm : 12
اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰى مَا یَرٰى
اَفَتُمٰرُوْنَهٗ : کیا پھر تم جھگڑتے ہو اس سے عَلٰي مَا يَرٰى : اوپر اس کے جو وہ دیکھتا ہے
(اے کافرو) کیا تم ان (نبی) سے ان کے دیکھے ہوئے1 پر جھگڑتے ہو۔
معجزہ معراج النبی ﷺ کے بارے قریش کا جھگڑا کرنا۔ (ف 1) مشرکین مکہ شب معراج کے واقعات کا انکار کرتے، اور اس میں جھگڑتے تھے، اس پر اللہ تعالیٰ نے ان مشرکین کو تنبیہ فرمائی کہ بیت المقدس کی جن چیزوں کا حال تم لوگوں نے پوچھا، نبی ﷺ نے وہ سب حال تم سے صحیح بیان کردیا، جس کو تم لوگ جھٹلانہ سکے، پھر نبی ﷺ اللہ کی قدرت سے عادت کے خلاف جس طرح ایک دم میں بیت المقدس پہنچ گئے اور بیت المقدس کی سب چیزوں کو دیکھا اسی طرح اس رات میں آسمان کے اور عجائبات بھی انہوں نے دیکھے، ان کی دیکھی ہوئی چیزوں کو اوپری باتوں کے جھگڑے نکال کر جوتم لوگ جھٹلاتے ہو یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ بیت المقدس کی حالت نے تمہاری سب اوپری باتوں کی جڑاکھیڑ دی ہے اب تمہارا کیا منہ ہے کہ تم دیکھی ہوئی باتوں کے مقابلہ میں اوپری باتوں سے جھگڑا نکال سکو۔ اس آیت میں قریش کے قائل کرنے کا مختصر جو ذکر ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے۔ بیت المقدس کی حالت کی تصدیق کے بعد اہل مکہ کو معراج کی باتوں کو جھٹلانے کا موقع باقی نہیں رہا تھا اس لیے معراج کی رات نبی نے سدرۃ المنتہی کے پاس حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو ان کی اصلی صورت میں دوبارہ دیکھا، حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے رب العزت کو اپنے قلب سے دومرتبہ دیکھا، اور انہیں سے یہ بھی مروی کہ حضور نے رب العزت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ سدرۃ المنتہی ایک درخت ہے جس کی اصل جڑ چھٹے آسمان میں ہے اور اس کی شاخیں ساتویں آسمان میں پھیلی ہیں اور بلندی میں وہ ساتویں آسمان سے بھی گذر گیا، ملائکہ اور ارواح شہداء ونبی مرسل اس سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ سوائے رسول اللہ کے یا یہ کہ کسی مخلوق کا علم خواہ نبی ہو، خواہ فرشتہ اور خواہ راسختین فی العلم ، اس سے آگے نہیں جاتا۔ اس سدرہ کے پاس جو جنت ہے وہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے رہنے کی جگہ ہے اور شہیدفوں اور مقربین کی روحیں بھی اسمیں رہتی ہیں اس لیے اس جنت کا نام جنت الماوی ہے۔ اس وقت جبکہ نبی ﷺ وہاں پہنچے یہ حال تھا کہ سدرۃ المنتہی کو قدرت الٰہی کے عجیب عجیب کرشمے جن کی عظمت و رفعت کا بیان نہیں ہوسکتا ڈھانپ رہے تھے اور سدرہ ان انوار عجیبہ مخلوقات غریبہ سے چھپی ہوئی تھی وبقولہ پروانے اس پر غیر متناہی لدے ہوئے تھے جیسے شمع کے پاس ہزاروں پروانوں کا ڈھیر ہوتا ہے وہ سونے کی تھی اور بقولے مراد نورتجلیات الٰہی ہے رسول اللہ نے لاکھوں کرشمے دیکھے کروڑوں تماشوں کی سیر کی مگر سوائے مقصود اصلی کے یعنی دیدار ذات مقدسہ الٰہی اس مقام میں جہاں عقلیں حیرت زدہ ہیں آپ ثابت رہے ۔ اور جس نور کا دیدار مقصود تھ ا اس سے بہتر اندوز ہوئے دائیں بائیں کسی طرف ملتفت نہ ہوئے نہ مقصود کی دید سے آنکھ پھیری ، نہ حضرت موسیٰ کی طرح بےہوش ہوئے بلکہ اس مقام عظیم میں ثابت رہے بیشک بیشک رسول اللہ نے شب معراج عجائب ملک وملکوت کو ملاحظہ فرمایا اور آپ کا علم تمام معلومات غیبیہ ملکوتیہ پر محیط ہوگیا، جیسا کہ حدیث اختصام ملائکہ میں وارد ہوا ہے اور دوسری اور احادیث میں آیا ہے۔ (روح البیان)
Top