Tafseer-e-Baghwi - Al-Hadid : 14
یُنَادُوْنَهُمْ اَلَمْ نَكُنْ مَّعَكُمْ١ؕ قَالُوْا بَلٰى وَ لٰكِنَّكُمْ فَتَنْتُمْ اَنْفُسَكُمْ وَ تَرَبَّصْتُمْ وَ ارْتَبْتُمْ وَ غَرَّتْكُمُ الْاَمَانِیُّ حَتّٰى جَآءَ اَمْرُ اللّٰهِ وَ غَرَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ
يُنَادُوْنَهُمْ : وہ پکاریں گے ان کو اَلَمْ : کیا نہ نَكُنْ : تھے ہم مَّعَكُمْ ۭ : تمہارے ساتھ قَالُوْا : وہ کہیں گے بَلٰى : کیوں نہیں وَلٰكِنَّكُمْ : لیکن تم نے فَتَنْتُمْ : فتنے میں ڈالا تم نے اَنْفُسَكُمْ : اپنے نفسوں کو وَتَرَبَّصْتُمْ : اور موقعہ پرستی کی تم نے وَارْتَبْتُمْ : اور شک میں پڑے رہے تم وَغَرَّتْكُمُ : اور دھوکے میں ڈالا تم کو الْاَمَانِيُّ : خواہشات نے حَتّٰى جَآءَ : یہاں تک کہ آگیا اَمْرُ اللّٰهِ : اللہ کا فیصلہ وَغَرَّكُمْ : اور دھوکے میں ڈالا تم کو بِاللّٰهِ : اللہ کے بارے میں الْغَرُوْرُ : بڑے دھوکے باز نے
اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں مومنوں سے کہیں گے کہ ہماری طرف نظر (شفقت) کیجئے کہ ہم بھی تمہارے نور سے روشنی حاصل کریں تو ان سے کہا جائے گا کہ پیچھے کو لوٹ جاؤ اور (وہاں) نور تلاش کرو پھر ان کے بیچ میں ایک ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا جو اسکی جانب اندرونی ہے اس میں تو رحمت ہے اور جو جانب بیرونی ہے اس طرف عذاب (و اذیت)
13 ۔” یوم یقول المنافقون والمنافقات للذین امنوا انظرونا “ اعمش اور حمزہ رحمہما اللہ نے ” انظرونا “ ہمزہ کے زبر اور ظاء کی زیر کے ساتھ پڑھا ہے یعنی ہمیں مہلت دو اور کہا گیا ہے تم ہمارا انتظار کرو اور دیگر حضرات نے الف کو حذف کیا ہے وصل میں اور اس کو پیش دیتے ہیں ابتداء میں اور ظاء کو پیش دیتے ہیں۔ عرب کہتے ہیں ” انظرنی وانظرنی “ یعنی تو میرا انتظار کر۔ ” نقتبس من نور کم “ تمہارے نور سے روشنی حاصل کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ مومنین کو نور ان کے اعمال کے مطابق دیں گے جس کے ذریعے وہ پل صراط پر چلیں گے اور منافقین کو بھی نور دیں گے ان کو فریب دینے کے لئے اور وہ اللہ تعالیٰ کا قول ” وھوخادعھم “ ہے۔ پس وہ چل رہے ہوں گے جب اللہ تعالیٰ ان پر ہوا اور تاریکی کو بھیجیں گے تو وہ منافقین کے نور کو بجھا دے گی۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا قول ” یوم لا یخزی اللہ النبی والذین امنوا معہ نورھم یسعیٰ بین ایدیھم وبایمانھم یقولون ربنا اتمم لنانورنا “ اس خوف سے کہ ان کا نور چین لیا جائے جیسا کہ منافقین کا نور سلب کیا گیا اور کلبی (رح) فرماتے ہیں بلکہ منافقین مومنین کے نور سے روشنی طلب کریں گے اور نور نہیں دیئے جائیں گے۔ پس جب مومنین ان سے آگے بڑھ جائیں گے اور وہ تاریکی میں باقی رہ جائیں گے تو مومنین کو کہیں گے تم ہمارے انتظار کرو ہم تمہارے نور سے روشنی حاصل کرلیں۔ ” قیل ارجعوا وراء کم “۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں ان کو مومنین کہیں گے اور قتادہ (رح) فرماتے ہیں ان کو فرشتے کہیں گے تم اپنے پیچھے لوٹ جائو جہاں سے تم آئے ہو۔ ” فالتمسوا نورا “ پس تم وہاں سے اپنے لئے نور تلاش کرو کیونکہ تمہارے لئے ہمارے نور سے سلگانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ پس وہ نور کی تلاش میں لوٹیں گے تو کچھ نہ پائیں گے۔ پھر ان کی طرف پلٹیں گے تاکہ ان کو ملیں تو ان کے درمیان اور مومنین کے درمیان جدائی کردی جائے گی اور وہ اللہ تعالیٰ کا قول ” فضرب بینھم بسور “ یعنی سور اور باء صلہ ہے یعنی مومنین و منافقین کے درمیان اور وہ دیوار ہے جنت وجہنم کے درمیان۔ ” لہ “ یعنی اس دیوار کا ” باب باطنہ فیہ الرحمۃ “ یعنی اس دیوار کے اندر رحمت یعنی جنت ہے۔ ” وظاھرہ “ یعنی اس دیوار کا باہر والا حصہ ” من قبلہ “ یعنی اس ظاہر کی جانب سے ۔ ” العذاب “ اور وہ آگ ہے۔
Top