Tafseer-e-Madani - Al-Hadid : 14
یُنَادُوْنَهُمْ اَلَمْ نَكُنْ مَّعَكُمْ١ؕ قَالُوْا بَلٰى وَ لٰكِنَّكُمْ فَتَنْتُمْ اَنْفُسَكُمْ وَ تَرَبَّصْتُمْ وَ ارْتَبْتُمْ وَ غَرَّتْكُمُ الْاَمَانِیُّ حَتّٰى جَآءَ اَمْرُ اللّٰهِ وَ غَرَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ
يُنَادُوْنَهُمْ : وہ پکاریں گے ان کو اَلَمْ : کیا نہ نَكُنْ : تھے ہم مَّعَكُمْ ۭ : تمہارے ساتھ قَالُوْا : وہ کہیں گے بَلٰى : کیوں نہیں وَلٰكِنَّكُمْ : لیکن تم نے فَتَنْتُمْ : فتنے میں ڈالا تم نے اَنْفُسَكُمْ : اپنے نفسوں کو وَتَرَبَّصْتُمْ : اور موقعہ پرستی کی تم نے وَارْتَبْتُمْ : اور شک میں پڑے رہے تم وَغَرَّتْكُمُ : اور دھوکے میں ڈالا تم کو الْاَمَانِيُّ : خواہشات نے حَتّٰى جَآءَ : یہاں تک کہ آگیا اَمْرُ اللّٰهِ : اللہ کا فیصلہ وَغَرَّكُمْ : اور دھوکے میں ڈالا تم کو بِاللّٰهِ : اللہ کے بارے میں الْغَرُوْرُ : بڑے دھوکے باز نے
وہ لوگ ایمان والوں کو پکار پکار کر کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ؟ وہ جواب دیں گے ہاں ضرور لیکن تم لوگوں نے خود فتنے میں ڈال رکھا تھا اپنے آپ کو تم (موقع اور فرصت کی) تاک میں لگے رہتے تھے تم شک میں مبتلا رہتے تھے اور تمہیں دھوکے میں ڈالے رکھا آرزؤوں نے یہاں تک کہ پہنچا اللہ کا حکم اور تم کو دھوکے میں ڈال رکھا تھا اللہ کے بارے میں اس بڑے دھوکے باز نے۔
[ 54] نفاق کا نتیجہ دوزخ۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ نفاق کا نتیجہ دوزخ ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ بہرکیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ منافقون کے نفاق کا نتیجہ دوزخ اور وہاں پر ہولناک عذاب ہوگا۔ یعنی دوزخ اور اس کی آگ اور دھواں، والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ سو اس وقت انکے سامنے یہ حقیقت آشکار ہوجائے گی کہ دنیا میں اپنے جس کفر و نفاق کو یہ لوگ اپنی بڑی چالاکی کی قرار دیتے اور ہوشیاری سمجھتے تھے، وہ اصل میں ان کیلئے درزخ کی آگ اور اس کا سامان تھا، مگر یہ اس بات کو جانتے اور مانتے نہیں تھے، کہ دنیا کے دار الامتحان میں اصل حقائق پر پردہ پڑا ہوا تھا جس سے یہ لوگ دھوکے میں پڑے ہوئے تھے اور حق اور اہل حق کی بات ماننے کو تیار نہیں ہو رہے تھے، مگر کشف حقائق اور ظہور نتائج کے اس جہاں میں جب سب پردے ہٹ جائیں گے اور حقائق اپنی اصل شکل میں سب کے سامنے آجائیں گے تو ان کو سب کچھ خود معلوم ہوجائے گا۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے اور ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنے کی توفیق بخشے، آمین ثم آمین یا رب العالمین، [ 55] منافقوں کی فریاد و پکار کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تب یہ لوگ ایمان والوں سے کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے ؟ کہ تمہارے ساتھ نمازیں پڑھتے، حج کرتے، اور دوسرے اجتماعات وغیرہ میں شامل ہوتے تھے، سو جب یہ منافق لوگ دیکھیں گے کہ روشنی کی جو جھلک نظر آئی تھی وہ بھی اوجھل ہوگئی ہے، اور اہل ایمان کے ساتھ انہوں نے دنیا میں اپنی منافقانہ ظاہر داری کو جو رشتہ قائم کر رکھا تھا وہ بھی ختم ہوگیا، اور ان سے ان کا رابطہ بالکل ٹوٹ گیا تو اس وقت یہ ان سے کہیں گے کہ بھائیو کیا ہم دنیا میں تمہارے ساتھ نہیں تھے ؟ تو آج آپ لوگوں نے ہمیں کیوں کاٹ پھینکا ؟ بہرکیف اس روز منافق لوگ اہل ایمان سے اپنے دنیاوی تعلقات جتلائیں گے اور ان سے زور دے کر اور چیخ چیخ کر کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے ؟ تمہارے ساتھ نمازیں نہیں پڑھا کرتے تھے ؟ روزے نہیں رکھا کرتے تھے ؟ تمہارے ساتھ جمعوں اور جماعات میں شریک نہیں ہوا کرتے تھے ؟ حج اور زکوٰۃ نہی ادا کرتے تھے ؟ تمہاری مجلسوں میں شریک نہیں ہوا کرتے تھے ؟ وغیرہ وغیرہ، یعنی یہ سب کچھ جب تھا اور یقینا تھا تو پھر آپ لوگوں نے آج ہم سے اس طرح منہ کیوں پھیرلیا ؟ اور ہمیں اندھیروں میں کیوں چھوڑدیا ؟ سو اس سے ان بدبختوں کی بدحالی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ [ 56] منافقین کی فریاد و پکار کے جواب کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ منافقوں کو اپنی فریاد و پکار کا اہل ایمان کی طرف سے یہ جواب لے گا کہ ہاں۔ یعنی یہ سب کچھ تو تھا اور ضرور تھا۔ لیکن تم لوگوں نے اپنے آپ کو خود فتنے میں ڈال رکھا تھا۔ منافقت، دھوکہ بازی، اور فریب کاری، کے فتنے میں، اس لئے ظاہری اور جسمانی طور پر ساتھ رہنا کوئی معنی نہیں رکھتا، معلوم ہوا کہ اصل تعلق اور ساتھ وہ ہے جو دل سے اور عقیدہ و ایمان کی بنیاد پر ہ، بہرکیف اہل ایمان کی طرف سے ان منافقوں کو جواب ملے گا کہ تم لوگ ظاہری طور پر اگرچہ ہو ہمارے ساتھ تھے، لیکن تمہارے دل ہمارے ساتھ نہیں تھے، بلکہ تم لوگ انہی فتنوں میں پڑے رہے تھے جن سے اللہ نے تم کو انکالنا چاہا تھا اور تم لوگ ایمان و اسلام کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود صدق دل سے مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ تمہاری وفاداریاں کفر اور کفار ہی کے ساتھ تھیں اور تم کفر و اسلام کے درمیان ہی مذبذب اور ڈانوا ڈول رہے تھے۔ ہولناک اور رسوا کن انداز میں، اور اس طور پر کہ ان کیلئے پھر نجات و گلو خلاصی کی کوئی صورت ممکن ہوگی، سو کفر و نفاق محرمیوں کی محرومی اور ہلاکتوں کی ہلاکت ہے، والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ [ 57] منافقت شیطان کا دھوکہ۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم : سو اس ارشار سے واضح فرمایا گیا کہ اہل ایمان منافقوں سے مزید کہیں گے کہ تم کو اللہ کے بارے میں دھوکے میں ڈال رکھا تھا اس بڑے دھوکے باز نے : یعنی شیطان نے، اور اس کا دھوکہ یہ کئی طرح سے تھا مثلاً یہ کہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنا ہی نہیں، بلکہ یونہی مٹ جائیں گے، کہ زندگی تو بس یہی دنیاوی زندگی ہے اور بس، اور یہ کہ اگر اٹھنا ہوا بھی تو اللہ ہمیں بخش دے گا کہ وہ بڑا غفور و رحیم ہے، اور یہ کہ ہم بڑے اونچے لوگ، سید، اور صاحبزادے وغیرہ وغیرہ۔ ہمیں کوئی عذاب ہوگا ہی نہیں، اور یہ کہ ہم نے فلاں فلاں ہستیوں کے دامن پکڑ رکھے ہیں، ان کے نام کی نذر و نیاز دے دیتے ہیں بس وہ ہمیں کافی ہیں، ہمیں کسی عمل وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں، ان ہستیوں کا دامن گرفتہ ہوجانا ہی ہمارے لئے کافی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہاں تک کہ انہی خوش نصیبوں میں فرصت عمر تمام ہوگئی، اور تم وہاں خالی ہاتھ پہنچے، بہرکیف اس سے واضح فرمادیا گیا کہ اہل ایمان اس روز منافقوں کی اس فریاد و پکار کے جواب میں ان سے کہیں گے کہ تم لوگ زندگی بھر شک میں پڑے رہے، ہمیشہ موقع پرستی اور منافقت میں مبتلا رہے، اور ابلیس نے تم لوگوں کو طرح طرح کے فتنوں، فریبوں، اور جھانسوں، میں محورمگن رکھا۔ جس کے نتیجے میں تم لوگ اپنی منافقانہ پالیسی ہی کو صحیح اور درست سمجھتے رہے، یہاں تک کہ تم لوگ اپنے اس انجام کو پہنچ کر رہے۔ سو اب تم بھگتان بھگتو اپنے لیے کرائے کا کہ اب تمہارے لیے نجات کی بہرحال کوئی صورت ممکن نہیں تب ان کی یاس و حسرت کا اندازہ کون کرسکتا ہے ؟ والعیاذ باللّٰہ۔
Top