Tafseer-e-Baghwi - At-Tawba : 90
وَ جَآءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ لِیُؤْذَنَ لَهُمْ وَ قَعَدَ الَّذِیْنَ كَذَبُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ١ؕ سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
وَجَآءَ : اور آئے الْمُعَذِّرُوْنَ : بہانہ بنانے والے مِنَ : سے الْاَعْرَابِ : دیہاتی (جمع) لِيُؤْذَنَ : کہ رخصت دی جائے لَهُمْ : ان کو وَقَعَدَ : بیٹھ رہے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَذَبُوا : جھوٹ بولا اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول سَيُصِيْبُ : عنقریب پہنچے گا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا مِنْهُمْ : ان سے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اور صحرا نشینوں میں سے بھی کچھ لوگ عذر کرتے ہوئے (تمہارے پاس) آئے کہ ان کو بھی اجازت دی جائے۔ اور جنہوں نے خدا اور اس کے رسول ﷺ سے جھُوٹ بولا وہ (گھر میں) بیٹھ رہے۔ سو جو لوگ ان میں سے کافر ہوئے انکو دکھ دینے والا عذاب پہنچے گا۔
آیت نمبر :90: یعقوب اور مجاہد رحمہما اللہ نے ” المعذرون “ تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ وہ لوگ جو عذر میں مبالغہ کرنے والے ہوں ضرب المثل ہے ” لقد اعذر من انذر “ یعنی جس شخص نے عذر میں مبالغہ کیا اور دیگر حضرات نے ” المعذرون “ شد کے ساتھ پڑھا ہے۔ یعنی کوتاہی کرنے والے۔ کہا جاتا ہے ” عذر “ یعنی کوتاہی کی اور فراء (رح) فرماتے ہیں ” المعذرون “ اصل میں ” المعتذرون “ تھا تاء کا ذال میں ادغام کردیا گیا ہے اور تاء کی حرکت عین کو منتقل کردی گئی ہے۔ جہاد سے پیچھے رہ جانے والوں کا تذکرہ ضحاک (رح) فرماتے ہیں کہ معذرون سے مراد عامر بن طفیل کا قبیلہ ہے۔ یہ لوگ اپنا دفاع کرنے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا اے اللہ کے نبی ! اگر ہم غزوہ میں شریک ہوتے تو قبیلہ طئی کے بدو ہماری عورتوں اور بچوں اور جانوروں پر غارت گری کرتے تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے تمہارے حالات کی خبر دے دی ہے اور عنقریب اللہ تعالیٰ تمہاری طرف سے کافی ہوجائے گا اور ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو کسی عذر کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے پیچھے رہ گئے تھے۔” وقعد الذین کذبو اللہ ورسولہ ‘ یعنی منافقین۔ ابو عمر بن علاء (رح) فرماتے ہیں کہ دونوں فریق برا فعل کرنے والے تھے۔ ایک وہ قوم جنہوں نے باطل عذر کرنے کی تکلیف کی اور انہی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول سے مراد لیا ہے ۔ ” وجاء المعذرون “ اور دوسری وہ قوم جنہوں نے کسی عذر کی تکلیف ہی نہیں کی اور پیچھے رہ گئے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ پر جرأت کی ۔ یہ منافقین ہیں۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے وعید بیان کی۔” سیصیب الذین کفروا منھم عذاب الیم “ پھر عذروالوں کا تذکرہ کیا۔
Top