Baseerat-e-Quran - An-Nahl : 74
فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
فَلَا تَضْرِبُوْا : پس تم نہ چسپاں کرو لِلّٰهِ : اللہ کے لیے۔ پر الْاَمْثَالَ : مثالیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے وَاَنْتُمْ : اور تم لَا تَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
پھر تم اللہ پر مثالیں چسپاں نہ کرو۔ بیشک (جس بات کو) اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔
لغات القرآن آیت نمبر 74 تا 76 لاتضربوا تم نہ مارو، تم نہ گھڑو۔ ضرب بیان کیا۔ عبد غلام۔ مملوک کسی کی ملکیت۔ لایقدر قدرت نہیں رکھتا۔ ینفق وہ خرچ کرتا ہے۔ سر چھپ کر۔ جھر کھل کر۔ ھل یستون کیا وہ دونوں برابر ہیں۔ رجلین دو آدمی۔ ابکم گونگا۔ لایقدر قدرت نہیں رکھتا، اختیار نہیں رکھتا۔ کل بوجھ۔ مولیٰ مالک، آقا۔ اینما جہاں بھی۔ یوجھہ اس کو بھیجا جاتا ہے۔ لایات نہیں لاتا۔ بخیر بھلائی سے۔ یامر حکم کرتا ہے۔ العدل انصاف تشریح : آیت نمبر 74 تا 76 اس سے پہلی آیات میں فرمایا گیا تھا کہ اے لوگو ! تم ایک اللہ کو چھوڑ کر ان غیر اللہ کی عبادت و بندگی نہ کرو جو آسمان و زمین میں نہ تو کچھ پیدا کرتے ہیں نہ وہ رزق پہنچاتے ہیں اور نہ ان میں اس کی طاقت و استطاعت ہے۔ وہ ایک اللہ ہے جو اس ساری کائنات کے نظام کو چلانے والا ہوے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ وہ دنیاوی حکمرانوں اور افسروں کی طرح نہیں ہے جن کو اپنا کام چلانے کے لئے بہت سے مددگاروں کی ضرورت پڑتی ہے بلکہ وہ ایسا حاکم مطلق ہے کہ جس چیز کو کرنا چاہتا ہے اس میں وہ اسباب کا محتاج نہیں ہے۔ چیز کے موجود ہونے کا حکم دیتا ہے اور وہ چیز موجود ہوجاتی ہے۔ ایسی ذات کو دنیاوی مثالوں سے سمجھنا سمجھانا سب سے مشکل اور ناممکن ہے۔ چونکہ اللہ کو کسی نے دیکھا نہیں لہٰذا اس کی قدرت، شان اور ذات عظیم کے لئے اپنے تصور اور گمان کے مطابق تصوراتی شکل بناتا ہے تو یہ اس کا اپنا خیال ہے۔ اگر وہ اس خیالی تصویر کی عبادت کرتا ہے اور ان سے اپنی مرادوں کے پورا ہونے کی توقع رکھتا ہے تو یہ اس کی نادانی اور اپنے خیال اور گمان کی عبادت و بندگی کہلائے گی اس لئے فرمایا کہ اے لوگو ! تم اللہ کے لئے مثالیں نہ گھڑ و اور جو کائنات میں مثالیں تمہارے سامنے موجود ہیں جن کو تم آسانی سے سمجھ سکتے ہو ان پر غور کرسکتے ہو، دیکھ سکتے ہو تو یقینا تم اس نتیجے تک پہنچ سکتے ہو کہ اللہ اپنی ذات میں یکتا ہے اور ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد کی حقیقت سامنے آتی ہے جس میں ارشاد فرمایا ہے کہ اے لوگو ! تم اللہ کی ذات میں غور نہ کرو بلکہ اس کی مخلوقات میں غور و فکر کرو۔ کیونکہ غور کرنے سے وہ اس فرق کو صاف اور واضح طریقہ پر سمجھ سکتا ہے کہ جب دو آدمی جو ایک ہی جنس سے مختلف صلاحیتوں کی بنا پر ایک جیسے نہیں ہو سکتے تو وہ خلاق جو ہر چیز پر ہر طرح کی قدرت و طاقت رکھتا ہے اس کے برابر وہ بندر کیسے ہو سکتا ہے جس کا اپنے وجود پر بھی پورا اختیار نہیں ہے۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے دو مثالوں سے واضح کیا ہے۔ فرمایا کہ تم اس بات میں غور کرو کہ دو شخص ہیں ایک تو وہ ہے جو کسی کا غلام ہے کوئی اس کا مالک ہے اور اس غلام کا اپنا کوئی اختیار نہیں ہے دوسرا وہ شخص ہے جس کو اللہ نے خوب بہترین رزق اور اسباب عطا کئے ہیں وہ اس میں سے اپنی مرضی کے مطابق جس طرح چاہتا ہے کھلے عام یا خاموشی سے خرچ کرتا ہے۔ اللہ نے سوال کیا ہے کہ یہ بتاؤ ایسے دو آدمی برابر ہو سکتے ہیں ؟ یقینا اس کا جواب یہی ہوگا۔ کہ ایک بےاختیار شخص ایک بااختیار کے برابر کیسے ہو سکتا ہے۔ اسی طرح دو شخص ہیں ایک تو ان میں سے بہرا گونگا ہے جو نہ تو سنتا ہے نہ اپنی بات کا اظہار کرسکتا ہے کسی چیز پر اس کا کوئی اختیار بھی نہیں ہے۔ کسی کام کا نہیں اس کا مالک اس کو جو کام بھی سپرد کرتا ہے وہ اس کو ٹھیک سے کر نہیں سکتا۔ دوسرا شخص وہ ہے جو عدل و انصاف کرنے کا خوگر ہے اور وہ راہ مستقیم پر ہے۔ اللہ نے سوال فرمایا ہے کہ کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ فرمایا کہ اگر عام زندگی کی اس مثال کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا جائے تو کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ اگر یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے جو ایک ہی جنس سے ہیں تو پھر یہ کیسی بےانصافی ، جہالت اور نادانی کی بات ہے کہ ان اندھے بہرے، گونگے بےاختیار پتھروں کے وہ بت جو کسی کے نفع نقصان کے مالک نہیں ہیں ان کو اس اللہ کے برابر سمجھا جائے جو ساری دنیا کو عدل و انصاف عطا فرماتا ہے جو کالم اختیار رکھتا ہے اپنے اختیار میں کسی کا محتاج نہیں ہے وہ اپنے اختیار سے جس طرح چاہتا ہے کرتا ہے اس کو ان بےبس اور عاجز معبودوں کے برابر سمجھنا انسان کی سب سے بڑی غلطی ہے۔
Top