Tafseer-e-Majidi - An-Nahl : 74
فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
فَلَا تَضْرِبُوْا : پس تم نہ چسپاں کرو لِلّٰهِ : اللہ کے لیے۔ پر الْاَمْثَالَ : مثالیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے وَاَنْتُمْ : اور تم لَا تَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
سو تم اللہ کے لئے مثالیں نہ گڑھو بیشک اللہ ہی علم رکھتا ہے اور تم علم نہیں رکھتے،113۔
113۔ صحیح مثال اپنے متعلق وہی بیان کرسکتا، اور صحیح صفات اپنی وہی بتا سکتا ہے، تم جب اپنی نافہمی سے کوشش کروگے، ایسی ہی الٹی پلٹی باتیں کروگے۔ مشرکین کا ایک مایہ ناز استدلال اس وقت یہی تھا، اور اب بھی ہے کہ آخر دنیا کے بادشاہوں کی خدمت میں براہ راست عرض ومعروض کون کرسکتا ہے، درمیانی واسطوں کی، عرض بیگیوں کی، امیروں وزیروں کی ضرورت پڑتی ہی ہے۔ پھر جو سب سلاطین کا سلطان کا سلطان اور شہنشاہ اعظم ہے، اس سے براہ راست اور بلا واسطہ تعلق پیدا کرنا کیونکر ممکن ہے ؟ اور ہم جو ان مورتیوں کی اور ان ستاروں کی پرستش کرتے ہیں، تو وہ بھی اسی لئے کہ وہ رب الارباب کے خادم اور اس کے ہاں مقرب ہیں، استدلال کی خرافت بالکل ظاہر ہے۔ دنیا کا بڑے سے بڑا بادشاہ بھی آخر انسان ہی ہوتا ہے، بشر ہی کے سے محدود وناقص قوی رکھتا ہے۔ وہ تو اس پر مجبور ہے کہ دوسروں کی اعانت حاصل کرے۔ اس کے برخلاف کہاں رب العالمین، جو ہر قید سے ماوراء، ہر اعتبار سے غیر محدود، ہر حد ونہایت سے برتر ہے، دونوں کا کوئی مقابلہ ہے ؟ دونوں کے درمیان کوئی نسبت ہے ؟ مغالطہ قیاس مع الفارق کی اس سے زیادہ کھلی ہوئی مثال اور کیا ہوگی ؟ آیت کی یہ توضیح امام رازی (رح) کے مذاق کے مطابق تھی۔ عام مفسرین نے امثال کو مثل کی جمع قرار دے کر معنی یہ کئے ہیں کہ مخلوقات میں سے کسی شے کو اس کے مثل نہ بتاؤ۔ قال المفسرون یعنی لاتشبھوہ بخلقہ (کبیر)
Top