Tafseer-e-Usmani - An-Nahl : 74
فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
فَلَا تَضْرِبُوْا : پس تم نہ چسپاں کرو لِلّٰهِ : اللہ کے لیے۔ پر الْاَمْثَالَ : مثالیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے وَاَنْتُمْ : اور تم لَا تَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
سو مت چسپاں کرو اللہ پر مثالیں1 بیشک اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے2
1 مشرک کہتے تھے کہ مالک اللہ ہی ہے۔ یہ لوگ اس کی سرکار میں مختار ہیں۔ ہمارے کام ان ہی سے پڑتے ہیں۔ بڑی سرکار تک براہ راست رسائی نہیں ہوسکتی۔ سو یہ مثال غلط ہے جو بارگاہ احدیت پر چسپاں نہیں۔ اللہ ہر چیز آپ کرتا ہے خواہ بالواسطہ ہو یا بلاواسطہ۔ کوئی کام کسی کو اس طرح سپرد نہیں کر رکھا جیسے سلاطین دنیا اپنے ماتحت حکام کو اختیارات تفویض کردیتے ہیں کہ تفویض تو ارادہ و اختیار سے کیا لیکن بعد تفویض ان اختیارات کے استعمال میں ماتحت آزاد ہیں۔ کسی مجسٹریٹ کے فیصلہ کے وقت بادشاہ یا پارلیمنٹ کو اس واقعہ اور فیصلہ کی مطلق خبر نہیں ہوتی۔ نہ اس وقت جزئی طور پر بادشاہ کی مشیت و ارادہ کو فیصلہ صادر کرنے میں قطعاً دخل ہے یہ صورت حق تعالیٰ کے یہاں نہیں۔ بلکہ ہر ایک چھوٹا بڑا کام اور ادنیٰ سے ادنیٰ جزئی خواہ بواسطہ اسباب یا بالواسطہ اس کے علم محیط اور مشیت و ارادہ سے وقوع پذیر ہوتی ہے۔ اسی لیے لازم ہے کہ آدمی ہر کلی جزئی کا فاعل اور موثر حقیقی اعتقاد کر کے تنہا اسی کو معبود و مستعان سمجھے۔ (تنبیہ) ابن عباس وغیرہ سلف سے " فَلَاتَضْرِبُوْا لِلّٰہِ اْلاَمْثَالَ " کا یہ مطلب منقول ہے۔ کہ خدا کا مماثل کسی کو مت ٹھہراؤ۔ 2 یعنی تم نہیں جانتے کہ خدا کے لیے کس طرح مثال پیش کرنی چاہیے۔ جو اصل حقیقت اور صحیح مطلب کی تفہیم میں معین ہو۔ اور اس کی عظمت و نزاہت کے خلاف شبہ پیدا نہ کرے۔ اگر صحیح مثال چاہو تو آگے دو مثالیں بیان فرمائیں۔ انھیں غور سے سنو اور تمثیل کی غرض کو سمجھو۔
Top