Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 74
فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
فَلَا تَضْرِبُوْا : پس تم نہ چسپاں کرو لِلّٰهِ : اللہ کے لیے۔ پر الْاَمْثَالَ : مثالیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے وَاَنْتُمْ : اور تم لَا تَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
پس دنیا کے بادشاہوں پر قیاس کر کے اللہ کے لیے مثالیں نہ گھڑو اللہ جانتا ہے اور تم کچھ نہیں جانتے
اللہ کے لئے مثالیں نہ گھڑو ‘ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے : 85۔ (آیت) ” فلا تضربوا للہ الامثال “۔ ” پس اللہ کے لئے مثالیں مت گھڑو “ ایک چھوٹا سا فقرہ ہے لیکن اس کے اندر اتنا مضمون قلم بند کردیا گیا ہے کہ اس کو کھول کر رکھا جائے تو ایک دفتر درکار ہے اس کو کہتے ہیں کو زے میں دریا بند کرنا ۔ انسان کی ساری درماندگی اس راہ میں یہ ہے کہ وہ اپنے معیار خیال سے اللہ کا تصور آراستہ کرنا چاہتا ہے اور اس کے لئے مثالیں تراشتا ہے حالانکہ اس کے سارے تصور اس کے سارے قیاسات ‘ اس کی ساری تمثیلیں ‘ اس کے لئے ٹھوکروں پر ٹھوکریں اور گمراہیوں پر گمراہیاں ہوتی جاتی ہیں وہ اپنی سوچی سمجھی تمثیلوں میں جتنا بڑھتا جاتا ہے اتنا ہی حقیقت سے دور ہوتا جاتا ہے کیونکہ وہ جتنی بھی تمثلیں بنا تا ہے اپنے ادراک و احساسات کے اندر رہ کر بناتا ہے اور ذات مطلق اس دائرہ کی رسائی سے ماورا ہے ۔ اے بروں از وہم وقال وقیل من : خاک بر فرق من و تمثیل من : جہاں تک تصور الہی کی تنزیہہ کا تعلق ہے قرآن کریم کی ان دو چھوٹی چھوٹی آیتوں میں سب کچھ کہہ دیا گیا ہے جن میں سے ایک آیت تو یہی ہے جو زیر نظر ہے اور دوسری (آیت) ” لیس کمثلہ شیء “ (الشوری 42 : 11) تنزیہہ کے بارے میں تم جو کچھ بھی کہو اس سے زیادہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کے لئے مثالیں نہ گھڑو ، وہ ان ساری چیزوں میں سے کسی چیز کے بھی مثل نہیں ہے جس کا تم تصور کرسکتے ہو ۔ اس جگہ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قرآن کریم کے تصور الہی کی تنزیہ کا یہ حال ہے تو پھر کیوں اس نے صفات کا اثبات کیا ہے ؟ صفات کے اثبات کا لازمی نتیجہ تشخص ہے یعنی تصور کی وہ نوعیت جسے انگزیزی میں پرسنل گارڈ (Prasonal Guard) سے تعبیر کیا جاتا ہے اور تشخص پیدا ہوا تو اطلاق باقی نہ رہا اور اس طرح تنزیہہ بھی اپنی بلندی سے نیچے اتر آئی اس لئے کہ اگر تنزیہہ کا مطلب یہ سمجھا جائے تو انسان کے تصور کے لئے کچھ باقی نہیں رہتا ۔ خدا کا تصور محض ایک سلبی تصور ہوجاتا ہے اور سلبی تصور سے خدا پرستی کی زندگی پیدا نہیں ہو سکتی ، خدا کا ایسا تصور اس کی فطرت کے لئے ایک ناقابل برداشت بوجھ ہوجائے گا ، انسان وجدانی طور پر ایک خالق و پروردگار ہستی کا یقین رکھتا ہے اور جب یقین رکھتا ہے تو ناگزیر ہے کہ اس کا تصور بھی کرے اور جب تصور کرے گا تو تشخص کے ساتھ ہی کرے گا ، غیر مشخص اور سلبی حقیقت کا تصور اس کی فطری طاقت سے باہر ہے اور اگر بہ تکلیف ایسا تصور پیدا بھی کرنا چاہے تو یہ اس کے لئے کوئی زندہ اور عامل تصور نہیں ہو سکتا اور پھر یہ بات کہ اس کی فطرت میں ایک ایسی ہستی کا وجدانی اعتقاد موجود ہے اس بات کا بھی فطری ثبوت ہے کہ اسے اس کا تصور کرنا چاہئے یعنی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ تصور کرے ‘ وہ وجدانی طور پر مجبور ہے کہ ایسا کرے لیکن جب وہ تصور کرے گا تو یہ ایک انسان ہی کا تصور ہوگا ‘ ماورائے انسانیت تصور نہیں ہوگا اور انسانی تصور کرے گا تو یہ ایک انسان ہی کا تصور ہوگا ‘ ماورائے انسانتا تصور نہیں ہوگا اور انسانی تصور تشخص کی پرچھائیں سے منزہ نہیں ہو سکتا ۔ اس تصور کا ولولہ انسان کی فطرت میں کیوں ابل رہا ہے ؟ اس لئے کہ اس کے معنوی ارتقاء کے لئے ایک نسب العین کی ضرورت تھی اور یہ نصب العین اللہ کی ہستی کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا ۔ مخلوقات میں جتنی چیزیں ہیں سب اس سے پست ہیں وہ بلند ہونے کے لئے ان کی طرف نہیں دیکھ سکتا ۔ اسے ایک ایسی ہستی کی ضرورت ہے جو سب سے بلند تر ہو اور زیادہ سے زیادہ بلندیوں تک اسے کھینچنے والی ہو ، یہ صرف اللہ کا تصور ہے اور یہی تصور ہے جو اسکے لئے اڑنے اور اونچے ہونے کا ایک ایسا نصب العین بہم پہنچا دیتا ہے ، جس سے بلند تر کوئی نصب العین نہیں ہو سکتا اور یہاں جو کچھ ہے سب اس سے فروتر ہے یہ اس کے آگے مقام انسانیت کی غیر محدود ترقیوں کی شاہراہ کھول دیتا ہے پس ضروری ہے کہ وہ اپنے سامنے ایک تصور رکھے اور تصور رکھے تو یہ ایک ایجابی تصور ہو محض نفی وسلب نہ ہو ‘ نفی وسلب اسے کچھ نہیں دے سکتا اسے کھینچ نہیں سکتا اسے اپنی آغوش میں نہیں لے سکتا ، سلبی تصور کیا ہے ؟ وہ یہ ہے کہ صرف نفی کی جائے ‘ اثبات نہ ہو یعنی کہا جائے وہ ایسا نہیں ہے ، ایسا بھی نہیں ہے اور پھر ایسا بھی نہیں ہے مگر یہ نہ کہا جائے کہ وہ ایسا ہے ‘ ایسا بھی ہے اور ایسا بھی ہے اور اس کا وجدان ایک ایسی ہستی کے لئے تشنہ ہے جو دینے والی ہو ‘ بلانے والی ہو ‘ کھینچنے والی ہو اپنے حسن و جمال کی صفتوں کے اندر سے جھانکنے والی ہو ؟ انسان کی پیاس صرف اس سے نہیں بجھ سکتی کہ اسے بتلا دیا جائے کہ خدا کی ذات ایسی نہیں ہے ‘ ایسی بھی نہیں ہے اس کی طلب والی احتیاج تو کسی ایسے کو ڈھونڈ رہی ہے جو بتائے میں ایسا ہوں اور مجھ میں ایسی ایسی صفتیں ہیں ۔ پھر تمام کائنات ہستی کی پکار کیا ہے ؟ جو انسان کے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے ، خود اس کی ہستی کا ایک ایک لمحہ کیا کہہ رہا ہے ؟ کیا ممکن ہے کہ انسان اس کی طرف سے کان بند کرلے ؟ کیا ہو سکتا ہے کہ وہ آنکھیں کھولنے سے انکار کردے ؟ یہاں کی ہرچیز گواہی دے رہی ہے کہ کسی بنانے والے میں بنانے اور سنوارنے کی صفتیں ہیں اور اس کی صفتوں ہی کے ہم نقش ونگار ہیں ، انسان یہ سارے نقش ونگار دیکھتا ہے اور ان میں حقیقتیں پاتا ہے پس ان کا تصور اسے کرنا ہی پڑے گا وہ دیکھا ہے کہ یہاں حسن و جمال ہے اس لئے اسے تصور کرنا ہی پڑے گا کہ اس میں حسن و جمال ہے وہ دیکھتا ہے کہ یہاں پروردگاری ہے اس لئے اسے تصور کرنا ہی پڑے گا کہ وہ پروردگار ہے ۔ پس اس راہ کی ٹھوکر اثبات صفات میں نہ ہوئی اس میں ہوئی کہ صفات کیسی ہونی چاہئیں ؟ ذہن انسانی نے جب کبھی نقشہ کھینچنا چاہا اپنی رسائی فکر کے مطابق تمثیلیں بنائیں اور اس میں گمراہ ہوا انبیاء کرام کی دعوت کا مقصد یہ رہا کہ اس گمراہی سے دنیا کو نجات دلائیں اور صفات الہی کا صحیح تصور پیدا کردیں ۔ قرآن کریم کا تصور الہی اسی لئے تصور کی تکمیل ہے کہ اس نے تیزیہہ کا مقصد بھی پورا کردیا اور صفات الہی کا کامل نقشہ بھی کھینچ دیا اس نے ایک طرف تو ہر طرح کی تمثیل وتجسم کا دروازہ بند کردیا کہ (آیت) ” لا تضربوا اللہ الامثال “۔ اور (آیت) ” لیس کمثلہ شیء “۔ اور دوسری طرف اس کی صفتوں سے بھی ہمیں آشنا کردیا تمام تر ” حسنی “ ہیں یعنی حسن و خوبی کی صفتیں ہیں اور جنہیں ہم کائنات ہستی کے ایک ایک ذرہ سے پوچھ سکتے ہیں اور ایک ایک ذرہ کے منہ سے بھی سکتے ہیں ! (آیت) ” شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو والملائکۃ واولوا العلم قآئمابالقسط لا الہ ھو العزیز الحکیم “۔ (آل عمران 3 : 18) اس کی تنزیہہ بھی کامل ہے کیونکہ تشبہ اور تجسم کی پرچھائیں بھی برداشت نہیں کرسکتی ۔ اس کی بتلائی ہوئی صفتیں بھی اعلی ہیں کیونکہ سرتاسرحسن ‘ سرتاسر کبریائی اور سرتاسرعظمت و جلال ہیں ۔ اس کی تفصیل پیچھے اس سورت کی آیت 60 اور حاشیہ 188 میں بھی گزر چکی ہے وہاں سے ملاحظہ فرما لیں ۔ حقیقت حال اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے : 86۔ چونکہ پہلے بھی لوگ استدلال کرتے رہے اور آج بھی کر رہے ہیں جیسا کہ مشرکین کا ایک مایہ ناز استدلال اس وقت یہی تھا اور اب بھی ہے کہ آخر دنیا کے بادشاہوں کی خدمت میں براہ راست عرض ومعروض کون کرسکتا ہے ؟ درمیانی واسطوں کی عرض بیگیوں کی ‘ امیروں ‘ وزیروں کی ضرورت پڑتی ہے پھر جو سب سلاطین کا سلطان اور شہنشاہ اعظم ہے اس سے براہ راست اور بلاواسطہ تعلق پیدا کرنا کیونکر ممکن ہے اور ہم جو ان مورتیوں ‘ قبروں اور شبیہوں کی اور ان اجرام سماوی کی پرستش کرتے ہیں تو وہ بھی اس لئے کہ وہ رب الارباب کے خادم اور اس کے ہاں مقرب ہیں ۔ حالانکہ استدلال کی خرافت بالکل ظاہر ہے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا بادشاہ بھی آخر انسان ہی ہوتا ہے اور بشر ہی کے محدود وناقص قوی رکھتا ہے وہ تو اس پر مجبور ہے کہ وہ دوسروں کی اعانت حاصل کرے ، اس کے خلاف کہاں رب العلمین جو ہر قید سے ماورا اور ہر اعتبار سے غیر محدود ‘ ہر حدونہایت سے برتر ہے دونوں کا کوئی مقابلہ ہے ؟ دونوں کے درمیان کوئی نسبت ہے ؟ اس بےنیاز ہستی کو محتاج ہستیوں پر کس طرح قیاس کیا جاسکتا ہے ؟ مغالطہ قیاس مع الفارق کی اس سے زیادہ کھلی ہوئی مثال اور کیا ہوگی ؟ ایک محدود چیز اور اس غیر محدود طاقت کا آپس میں کیا مقابلہ ؟ کرے کیا کعبہ میں سر بت خانہ سے آگاہ ہے یہاں تو کوئی صورت بھی ہے واں اللہ ہی اللہ ہے ۔
Top