Baseerat-e-Quran - Al-Hajj : 49
قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّمَاۤ اَنَا لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۚ
قُلْ : فرما دیں يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَنَا : میں لَكُمْ : تمہارے لیے نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ : ڈرانے والا آشکارا
آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو ! میں تمہیں صاف صاف آگاہ کردینے والا ہوں۔
لغات القرآن آیت نمبر 49 تا 57 نذیر مبین (کھلا ہوا ڈرانے والا) رزق کریم (عزت کا رزق) سعوا (جودوڑے) ‘ معجزین (عاجزی کرنے والا۔ نیچا دکھانے والے) ‘ تمنی (اس نے آرزو کی۔ اس نے بات کہی) ‘ ینسخ (وہ منسوخ کرتا ہے۔ وہ ہٹا تا ہے) ‘ یحکم (وہ مضبوط کرتا ہے) ‘ القاسیۃ (سخت) ‘ شقاق (ضد۔ ہٹ دھرمی) ‘ مریۃ (شک و شبہ) ‘ بغتۃ (اچانک) عقیم (منحوس) ۔ ان آیات میں نبی کریم ﷺ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کہیے اے لوگو ! میں نہایت واضح طریقہ پر صاف صاف ان اعمال کے برے نتائج سے آگاہ اور خبردار کر رہا ہوں جن کی صداقت کو تم نے نظر انداز کر رکھا ہے۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جو لوگ ایمان لاکر عمل صالح کی زندگی اختیار کرتے ہیں ان کے لئے اللہ کے ہاں مغفرت کا سامان ہے بلکہ (دنیا اور آخرت میں) عزت و آبرو کے ساتھ ان کو اتنا کچھدیا جائے گا جس کا اس دنیا میں تصورممکن نہیں ہے۔ لیکن جو لوگ حق و صداقت کو جھٹلانے نیچا دکھانے اور حق کی آواز کو دبانے کے لئے بھاگ دوڑ میں لگے ہوئے ہیں انکا ٹھکانا جہنم ہے۔ نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک سے کہلوایا جارہا ہے کہ آپ سے پہلے جتنے بھی رسول اور نبی گذرے ہیں جب انہوں نے آنے والی حقیقی زندگی جس کو کفار نے بےحقیقت سجھ کر نظر انداز کیا ہوا تھا اس کے برے نتائج سے آگاہ کرنے اور حق و صداقت کی باتوں کو بتانے کی کوشش کرتے ہیں تو شیطان ان کی باتوں میں شبہ پیدا کرنے کے لئے اپنی طرف سے ملاوٹ کی کوشش کرتا ہے تاکہ رسول اور نبی کی باتوں کو توڑ مروڑ کر لوگوں کے کانوں تک پہنچایا جائے۔ بہت سے لوگ اس کے فریب اذر دھوکے میں آکر کہہ دیتے ہیں کہ واقعی اس کا وہی مطلب ہے جو شیطانوں کی طرف سے بیان کیا جارہا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ شیطان کے اس فریب کے پردے کو چاک کرنے کے لئے وحی (خفی) نازل کرتا ہے تاکہ شیطان اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔ جو لوگ ایمان اور عمل صالح کے پیکر ہوتے ہیں وہ تو شیطانکے پرو پیگنڈے اور ملاوٹ کی باتوں سے متاثر نہیں ہوتے وہ الفاظ کے فریب اور اس کے ظاہری پہلوؤں میں اٹکنے کے بجائے باتوں کی گہرائی اور حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ اس مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن وہ لوگ جو علم ‘ عقل ‘ اور فہم و فراست سے کورے ہوتے ہیں وہ شیطان کے مکرو فریب میں پھنس جاتے ہیں۔ ان کی نفسانی خواہشات ان کو چاروں طرف سے اس طرح جکڑ لیتی ہیں کہ ان کے دلوں کے روگ اور مزاجوں کی سختی ان کو ہر صحیح بات کو سمجھنے سے روک دیتی ہے اور ان کو صحیح راستہ سجھائی نہیں دیتا۔ وہ ہمیشہ شک میں پڑے رہتے ہیں فرمایا کہ یا تو ان پر اچانک قیامت آجائے گی یا ان پر ایک ایسے دکا عذاب نازل ہوجائے گا جس سے جان چھڑا ناممکن نہ ہوگا۔ فرمایا کہ قیامت کا دن دور نہیں ہے۔ یہ وہ دن ہوگا۔ جس میں ساری طاقت و قوت اور حکومت و سلطنت صرف ایک اللہ کی ہوگی جو ان کے درمیان فیصلہ فرمادے گا۔ جو ایمان اور عمل صالح اختیار کرنے والے ہیں وہ تو راحت بھری جنتوں میں داخل کئے جائیں گے اور کفر و نکار کی روش پر چلنے والے اور جو اللہ کی آیات کو جھٹلانے والے ہوں گے ان پر ذلت والا عذاب مسلط کیا جائے گا۔
Top