Tadabbur-e-Quran - Al-Hajj : 49
قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّمَاۤ اَنَا لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۚ
قُلْ : فرما دیں يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَنَا : میں لَكُمْ : تمہارے لیے نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ : ڈرانے والا آشکارا
کہہ دو ، اے لوگو ! میں تو تمہارے لئے بس ایک کھلا ہوا آگاہی پہنچانے والا ہوں
رسول کی اصل ذمہ داری نذیر یرمبین پر ہم دوسری جگہ بحث کرچکے ہیں۔ عربوں میں یہ طریقہ تھا کہ قبیلہ یا قافلہ جہاں ڈیرا ڈالتا وہاں کسی اونچی جگہ پر ایک نگران پہرہ دیتا اور اگر وہ کسی طرح سے کوئی خطرہ محسوس کرتا تو اپنے کپڑے اتار کر ننگا ہوجاتا اور خطرے کا اعلان کرتا جس کے بعد قبیلہ یا قافلہ کے سارے مرد تلواریں سونت کو مدافعت کے لئے تیار ہوجاتے۔ اس کو نذیر عریاں کہتے تھے۔ یہ تعبیر چونکہ ناشائستہ تھی، نبی کے لئے اس کا استعمال موزوں نہ تھا، اس وجہ سے قرآن نے اس کو نذیر مبین کی شکل میں شائستہ بنا لیا ہے لیکن اس میں تلمیح نذیر عریاں ہی کی طرف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک نذیر عریاں قوم کو خطرے سے اگٓاہ کرتا ہے تم ایک نذیر مبین بن کر لوگوں کو آنے والے وقت سے آگاہ کر دو۔ لیکن بس آگاہ کر دو۔ نہ اس خطرے کو دکھا دینا تمہاری ذمہ داری ہے نہ اس سے لوگوں و بچانا تمہاری ذمہ داری ہے۔ اگر لوگ تمہارے اس واضح انداز کے بعد بھی متنبہ نہ ہوں گے تو نتائج کی ذمہ داری خود ان پر ہے۔ یہ مضمون انما کے اندر جو حصر کا مفہوم ہے اس سے نکلتا ہے۔ فالذین امنوا و عملوا الصلحت لھم مغفرۃ و رزق کریم والذین سعوا فی ایتنا معجزین اولٓئک اصحب الجحیم یہ وہ اصل انذار ہے جس سے آشکارا طور پر لوگوں کو آگاہ کردینے کی نبی ﷺ کو ہدایت ہوئی۔ اس کا آغاز اگرچہ اہل ایمان کے لئے بشارت سے ہوا ہے لیکن یہاں یہ بشارت بھی انذار ہی کا مقدمہ ہے اس لئے کہ کلام کا رخ قریش کے متکبرین کی طرف ہے اور یہ بشارت ان کے غرور پر ایک کاری ضرب ہے۔ فرمایا کہ لوگوں کو سنا دو کہ وہ وقت آ رہا ہے جب ایمان و عمل صالح والوں کو تو مغفرت اور رزق کریم کی سرفرازی حاصل ہوگی، رہے وہ لوگ جن کی ساری بھاگ دوڑ ہماری آیات کی تکذیب اور ہمارے رسول کو شکستد ینے کی راہ میں ہے جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے۔ رزق کریم مغفرت کا ثمرہ اور جنت کی تمام نعمتوں کی ایک جامع تعبیر ہے۔ یہاں کریم کی صفت اپنے اندر گوناگوں پہلو رکھتی ہے جن کی فصیل اپنے محل میں آئے گی۔ معاجزۃ کے معنی اس مسابقت کے ہیں جو کسی کو شکست دینے کے لئے کی جائے۔ یہاں اس سے اشارہ کفار کی اس بھاگ دوڑ کی طرف ہے جو نبی ﷺ کو شکست دینے کے لئے وہ کر رہے تھے۔
Top