Al-Qurtubi - Al-Hajj : 49
قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّمَاۤ اَنَا لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۚ
قُلْ : فرما دیں يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَنَا : میں لَكُمْ : تمہارے لیے نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ : ڈرانے والا آشکارا
(اے پیغمبر) کہہ دو کہ لوگو ! میں تم کو کھلم کھلا نصیحت کرنے والا ہوں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قل یایھا الناس، الناس سے مراد اہل مکہ ہیں۔ انما انالکم نذیر، نذیر بمعنی منذر اور مخوف (ڈرانے والا) ہے۔ انذار کا معنی سورة بقرہ کے آغاز میں گزر چکا ہے۔ مبین۔ یعنی دینی معاملات میں سے جس کی تمہیں ضرورت ہوتی ہے میں تمہارے لیے اسے بیان کرنے والا ہوں۔ رزق کریم۔ سے مراد جنت ہے۔ والذین سعوافی ایتنا وہ لوگ جو ہماری آیات کو باطل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ معاجزین غلبہ پانے کے لیے جنگ کرنے کے لیے۔ یہ حضرت اببن عباس ؓ کا قول ہے۔راء نے کہا : اس کا معنی ہے دشمنی کرتے ہوئے۔ حضرت عببداللہ بن زبیر نے کہا : اسلام سے باز رکھنے والے تھے۔ اخفش نے کہا : معاندین مسابقین۔ زجاج نے کہا : یہ گمان کرتے ہوئئے کہ وہ ہمیں عاجز کردیں گے کیونکہ ان کا گمان تھا کہ دوببارہ اٹھنا نہیں ہوگا اور انہوں نے گمان کیا کہ اللہ تعالیٰ ان پر قادر نہ ہوگا ؛ یہ قتادہ کا قول ہے اسی طرح ابن کثیر اور اببو عمرو کی قرأت معجزین کا معنی ہے انہوں نے الف کے بغیر جیم کی شد کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ معنی بھی جائئز ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ اور آیات پر ایمان لانے میں مومنین کو عاجز کرتے تھے ؛ یہ سدی کا قول ہے۔ بعض نے کہا : جو حضرت محمد ﷺ کی اتباع کرتا تھا اسے وہ عجز کی طرف منسوب کرتے تھے جیسے ان کا قول ہے جھلتہ وفسقتہ میں نے اسے جہالت اور فسق کی طرف منسوب کیا۔
Top