Baseerat-e-Quran - Al-Ankaboot : 45
اُتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ١ؕ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ
اُتْلُ : آپ پڑھیں مَآ : جو اُوْحِيَ : وحی کی گئی اِلَيْكَ : آپ کی طرف مِنَ الْكِتٰبِ : کتاب سے وَاَقِمِ : اور قائم کریں الصَّلٰوةَ ۭ : نماز اِنَّ : بیشک الصَّلٰوةَ : نماز تَنْهٰى : روکتی ہے عَنِ الْفَحْشَآءِ : بےحیائی سے وَالْمُنْكَرِ ۭ : اور برائی وَلَذِكْرُ اللّٰهِ : اور البتہ اللہ کی یاد اَكْبَرُ ۭ : سب سے بڑی بات وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا تَصْنَعُوْنَ : جو تم کرتے ہو
(اے نبی ﷺ جو کتاب آپ کی طرف اتاری گئی ہے اس کی تلاوت کیجئے اور نماز قائم کیجئے بیشک نماز بےحیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ اور اللہ کا ذکر سب سے بڑھ کر ہے۔ اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔
لغات القرآن آیت نمبر (45 تا 47 ) ۔ اتل (پڑھ۔ تلاوت کر) ۔ اوحی (وحی کی گئی) ۔ اقم (قائم کر) ۔ تنھی (روکتا ہے) ۔ لا تجادلوا (تم نہ جھگڑو ) ۔ ما یجحد (وہ انکار نہیں کرتا) ۔ تشریح : آیت نمبر (45 تا 47 ) ۔ ” نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ کو خطاب کرتے ہوئے درحققیت آپ کی پوری امت کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں ہمت و جرات سے آگے بڑھتے رہنا اور حالات کے ناموافق ہونے کے باوجود مایوس نہ ہونا سنت انبیاء ہے۔ کیونکہ آپ سے پہلے جتنے بھی انبیاء کرام گذرے ہیں ان کی امتوں نے اللہ کی نافرمانیوں کی انتہا کردی تھی وہ ان کا مذاق اڑاتے، پھبتیاں کستے اور طرح طرح سے ستاتے تھے مگر انبیاء کرام اور ان پر ایمان لانے والوں نے مخالفین کی ایذاؤں پر صبر و تحمل سے کام لیا۔ جب انکار کرنے والے حد سے گذر گئے تو اللہ نے ان پر ایسے ایسے عذاب بھیجے جس سے وہ صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے۔ ان آیات میں نبی کریم ﷺ کے واسطے سے پوری امت سے فرمایا گیا ہے کہ وہ تلاوت کلام اللہ، نماز اور اللہ کے ذکر سے اپنے دلوں کو روشن ومنور کرتے جائیں اور اگر راہ حق میں اہل کتاب کی طرف سے خاص طور پر کچھ ایسی باتیں سامنے آئیں جو تمہیں باگوار گذریں تو ان سے الجھنے کے بجائے احسن طریقے سے جواب دے دیا جائے یعنی اگر کوئی سخت بات کہی گئی ہو تو اس کا جواب نرم لہجے اور تہذیب و شائستگی سے دیا جائے غصہ اور انتقامی جذبات کا جواب صبر و تحمل سے اور جاہلانہ باتوں کا جواب وقار اور سنجیدگی سے دیا جائے تاکہ راہ سے بھٹکے ہوئے لوگ بات اور گفتگو میں اجنبیت کے بجائے اپنائیت محسوس کریں۔ البتہ نرمی اور شرافت میں اعتدال کی روش اختیار کی جائے تاکہ وہ لوگ جن کا کام زیادتی ہی کرنا ہے وہ نرمی اور شرافت کو اہل ایمان کی کمزوری نہ سمجھ لیں۔ ہر ایک کو سمجھا دیا جائے کہ آئو ہم سب مل کر ان سب کتابوں پر ایمان لے آئیں جو پہلے سے نازل کی جا چکی ہیں اور جو کچھ نبی کریم ﷺ پر نازل کیا گیا ہے اس پر بھی ایمان لائیں۔ کیونکہ تمہارا اور ہمارا پروردگار ایک ہی ہے ہمیں صرف اسی کا فرماں بردار ہونا چاہیے۔ فرمایا کہ جن لوگوں کو پہلے سے تاب دی گئی ہے وہ ضرور ایمان لے آئیں گے لیکن جن لوگوں کو انکار کرنا ہے وہ کسی بات کو تسلیم نہ کریں گے۔ ان تمام باتوں کو ان آیات میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ ارشاد ہے اے نبی ﷺ ! آپ کی طرف کتاب میں سے جو کچھ وحی کی جائے اس کی تلاوت کیجیے۔ تلاوت قرآن کریم سے مراد ان آیات کو پڑھ کر سنانا اور سمجھانا ہے اور وحی کی تبلیغ بھی ہے یعنی قرآن کریم کا پڑھنا، پڑھانا، سمجھنا اور سمجھانا اس کے احکامات پر پوری طرح عمل کرنا ضروری ہے تاکہ یہ آیات ہر مومن کے دل کا نور بن جائیں۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ اے نبی ﷺ ! نماز کو قائم کیجیے۔ نماز کیا ہے ؟ نماز سب سے اہم عبادت ہے، پانچوں نمازوں کو ان کے وقت کے ادر ادا کیا جائے کیونکہ مسجدوں میں پانچ وقت کی نمازوں سے یہ تصور ہمیشہ زندہ رہتا ہے کہ نماز پڑھنے والا اللہ کا بندہ ہے۔ اس کے بتائے ہوئے احکامات کا پابند ہے۔ وہ جو بھی عمل کر رہا ہے اس کو پوری برح علم صرف اللہ کو ہے۔ اللہ اور اس کے بندے کے درمیان کوئی دوسرا نہیں ہے۔ وہ اس اللہ کی عبادت و بندگی کر رہا ہے جو دلوں اور نیتوں کے تمام احوال سے اچھی طرح واقف ہے۔ جس بات کو ساری دنیا سے چھپایا جاسکتا ہے اس کو اپنے اللہ سے نہیں چھپایا جاسکتا۔ نمازوں سے اس کا یہ خیال بھی پختہ ہوتا جاتا ہے کہ اس کو ایک دن اسی طرح اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر زندگی کے ہر لمحے کا حساب دینا ہے۔ نماز ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جو انسان کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلا کر اس میں تواضع اور انکساری پیدا کرتی ہے۔ نماز سے انسان ہر برح کے فحش اور منکرات سے محفوظ ہوتا چلا جاتا ہے۔ (فحشا) ہر وہ کام یا بات جس کی برائی انکار نہیں کرتا اس میں یہ شرط نہیں کہ وہ آدمی مومن ہے یا کافر ایک انسان کی حیثیت سے وہ ان باتوں کو برا سمجھتا ہے جیسے زنا، بدکاری، قتل ناحق، چوری، ڈکیتی، جھوٹ، فریب، غیبت اور چغل خوری وغیرہ۔ (منکر) ہر وہ کام اور بات جس کے ناجائز اور برا ہونے کا فیصلہ شریعت کے مطابق کیا گیا ہو۔ نماز فحشا اور منکر سے انسان کو محفوظ رکھتی ہے۔ در حقیقت ان دو لفظوں میں تمام ظاہری اور باطنی گمروہیوں اور بیماریوں کی تفصیل آجاتی ہے۔ یعنی یہ دو باتیں ساری دنیا میں فساد کر جڑ ہیں اور ہر نیک کام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اگر فحشا اور منکر ختم ہوجائیں تو دنیا بھر کے لوگوں کو امن و سکون نصیب ہوجائے۔ فرمایا کہ یہ سکون تلاوت قرآن اور اقامت صلوۃ سے نصیب ہوتا ہے۔ البتہ اگر ایک شخص تلاوت کلام اللہ اور اقامت صلوۃ کے فریضے کو بھی ادا کرتا ہے اور دنیا بھر کی خرافات میں بھی مبتلا رہتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ بری عادتیں اقامت صلوۃ کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص جو نمازوں کا پابند ہے اور زمین فساد بھی مچاتا ہے تو یہ کہا جائے گا کہ اس نے نمازی کو صورت تو بنالی ہے مگر وہ اپنے اندر اس روح کو پیدا نہ کرسکا جو نمازوں کے قائم کرنے کا مقصد تھا۔ چناچہ نبی کریم ﷺ نے ایسے نمازیوں کے متعلق ناپسند یدگی کا اظہار فرمایا ہے۔ حضرت عمر ان ابن حصین ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ ” ان الصلوۃ تنھی عن الفحشاء و المنکر “ کا کیا مطلب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کو اس کی نماز نے فحشا اور منکر سے نہ روکا اس کی نماز کچھ نہیں (ابن ابی حاتم) ۔ اس حدیث رسول ﷺ سے معلوم ہوا کہ نماز کے منع کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ ہر طرح کے گناہوں سے بچتا رہے کیونکہ نماز کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کے پڑھنے والوں کو گناہوں سے بچنے کی توفیق مل ہی جاتی ہے۔ اور جس کو یہ توفیق نصیب نہ ہو وہ اس بات کو سمجھ لے کہ اس کی نماز میں کوئی خاص کمی ہے اور اس نے اقامت صلوۃ کا صحیح حق ادا نہیں کیا۔ ان آیات میں تیسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ اللہ کا ذکر سب سے بڑھ کر ایک سچائی ہے۔ ذکر اللہ اور اللہ کی یاد یہ ہے کہ ایک مومن کو اللہ کی طرف سے جو حکم دیا گیا ہے اس کی تعمیل کی جائے اور جس چیز سے منع کیا گیا ہے اس سے رک جائے اللہ کو یاد بھی رکھاجائے اور اللہ کو یاد بھی کیا جائے کیونکہ ذکر اللہ بلا شبہ ایک اعلی ترین عبادت ہے اللہ کی یاد سے انسان کو اس کی معرفت نصیب ہوتی ہے۔ چوتھی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ اب ان کو اہل کتاب سے واسطہ پڑے گا۔ ہو سکتا ہے وہ کچھ ایسی باتیں کر گذریں جن سے اہل ایمان کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہو تو فرمایا کہ اگر وہ کوئی سخت انداز اختیار کریں تب بھی خیر خواہی کا تقاضا یہ ہے کہ جواب میں الفاظ اور لہجہ دونوں نرم ہوں۔ غصہ اور انتقام کی باتوں کا جواب تحمل اور برداشت سے دیا جائے۔ جاہلانہ باتوں کا جواب وقار اور سنجیدگی سے دیا جائے۔ اگر الفاظ اور گفتگو میں شائستگی اور نرمی اختیار کی جائے تو راہ سے بھٹکے ہوئے لوگوں کی اصلاح آسان ہوجاتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ دین اسلام اپنے ماننے والوں سے تہذیب و شائستگی، شرافت و معقولیت، حلم و تحمل اور وقار و سنجیدگی کی توقع رکھتا ہے البتہ جو لوگ ظلم و زیادتی کرتے ہیں ان کے ساتھ ظلم کو نوعیت کے لحاظ سے مختلف رویہ اختیار کیا جاسکتا ہے تاکہ دشمنان اسلام اہل ایمان کی نرم مزاجی کو ان کی کمزوری نہ سمجھ بیٹھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب اور کفار سے بحث و مباحثہ کے وقت بہترین رویہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ وہ لوگ جو مسلمانوں کے دشمن بنے ہوئے ہیں ان کے اخلاق کریمانہ سے وہ دین اسلام کے قریب آجائیں۔ ارشاد ہے۔ اپنے رب کے راستے کی طرف بہترین نصیحت کے ساتھ دعوت دو اور لوگوں سے مجادلہ (بحث و مباحثہ) کرو تو اس میں احسن طریقہ اختیار کرو۔ (النحل آیت نمبر 125) ۔ فرمایا۔ بھلائی اور برائی یکساں نہیں ہیں (دین اسلام کا دفاع اس طرح کرو) جو بہترین طریقہ ہو تم دیکھو گے کہ وہی شخص جو دشمن تھا وہ ایک گہرا اور گرم جوش دوست بن جائے گا (حم السجدہ۔ آیت نمبر 34) ۔ فرمایا گیا کہ (لوگو ! ) تم معافی اور درگذر کی روش اختیار کرو۔ بھلائی کی تلقین کرو۔ اور جاہلوں کے منہ نہ لگو ۔ اگر شیطان تمہیں (غلط) جواب دینے پر اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگتے رہو۔ (الاعراف۔ آیت نمبر 199) ۔ آخر میں فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! ہم نے یہ کتاب (قرآن مجید) آپ پر نازل کی ہے۔ جن لوگوں میں (اہل کتاب میں سے خاص طور پر) ایمان لانے کی صلاحیت ہے وہ ضرور ایمان لائیں گے۔ (اور یہ مکہ والے بھی) اس پر یقین رکھتے ہیں (لیکن زبان سے اقرار نہیں کرتے) بہرحال وہ لوگ جو کافر ہیں وہی اس سچائی کا انکار کرسکتے ہیں۔ جن لوگوں کے دلوں میں ذرہ برابر بھی ایمان کا جذبہ ہے وہ قرآن کریم جیسی سچائی کا انکار نہیں کرسکتے۔
Top