Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Taiseer-ul-Quran - Al-Ankaboot : 45
اُتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ١ؕ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ
اُتْلُ
: آپ پڑھیں
مَآ
: جو
اُوْحِيَ
: وحی کی گئی
اِلَيْكَ
: آپ کی طرف
مِنَ الْكِتٰبِ
: کتاب سے
وَاَقِمِ
: اور قائم کریں
الصَّلٰوةَ ۭ
: نماز
اِنَّ
: بیشک
الصَّلٰوةَ
: نماز
تَنْهٰى
: روکتی ہے
عَنِ الْفَحْشَآءِ
: بےحیائی سے
وَالْمُنْكَرِ ۭ
: اور برائی
وَلَذِكْرُ اللّٰهِ
: اور البتہ اللہ کی یاد
اَكْبَرُ ۭ
: سب سے بڑی بات
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
يَعْلَمُ
: جانتا ہے
مَا تَصْنَعُوْنَ
: جو تم کرتے ہو
(اے نبی ! ) اس کتاب کی تلاوت
72
کیجئے جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اور نماز قائم کیجئے۔ نماز یقینا بےحیائی اور برے کاموں
73
سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر تو سب سے بڑی چیز
74
ہے اور جو کام تم کرتے ہو اللہ اسے جانتا
75
ہے۔
72
اس آیت میں یہ ظاہر خطاب صرف رسول اللہ کو ہے لیکن مخاطب سارے ہی مومن ہیں۔ جو مکہ میں کافروں کے ہاتھوں تکلیفیں اٹھا رہے تھے۔ ان مصائب کے مداوا کے طور پر انھیں تین باتوں کی تلقین کی گئی ایک قرآن کی تلاوت، دوسرے نماز پر ہمیشگی اور تیسرے ہر وقت اللہ کو یاد رکھنا۔ تلاوت قرآن کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے دل میں صبر اور برداشت کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا : (لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنٰهُ تَرْتِيْلًا
32
)
25
۔ الفرقان :
32
) بشرطیکہ قرآن کریم کو سوچ سمجھ کر پڑھا جائے اور اس کی اقتضات کو اپنی ذات پر نافذ کیا جائے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت بذات خود باعث اجر وثواب ہے۔ اور اس کے ایک ایک حرف کے عوض دس نیکیاں ملتی ہیں۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جس نے اللہ کی کتاب سے ایک حرف پڑھا، اس کے لئے ایک نیکی ہے اور ہر نیکی کا ثواب دس گنا ہے۔ اور میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے۔ بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب فضائل القرآن۔ باب ماجاء فی من قرء حرفا من القرآن۔۔ ) تیسرا فائدہ یہ ہے کہ تلاوت قرآن سوچ سمجھ کر پڑھنے سے اس کے معارف و حقائق پڑھنے والے پر منکشف ہوتے چلے جاتے ہیں۔ چوتھا فائدہ یہ ہے کہ تلاوت قرآن سے دوسرے لوگ بھی اس کے مواعظہ اور علوم و برکات سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ پانچواں فائدہ یہ ہے کہ دعوت و اصطلاح کے فریضہ کی اصل بنیاد تلاوت قرآن کریم بھی ہے۔ پھر جو لوگ قرآن کی ہدایت کو تسلیم نہ کریں ان پر اللہ کی حجت قائم اور پوری ہوجاتی ہے۔ لیکن ہمارے دور کے مفسر قرآن جناب پرویز صاحب بلا سوچے سمجھے تلاوت قرآن کو ایک بےہودہ فعل قرار دیتے ہیں، فرماتے ہیں کہ : قرآن ایک کتاب ہے جس میں لکھا ہے کہ اس کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہئے۔ کہئے اس کے الفاظ دہرا دینے سے یہ مقصد حاصل ہوجائے گا ؟ نیز قرآن اپنے مضامین پر بار بار غور و فکر کی دعوت دیتا ہے کیا یہ مقصود بلاسوچے سمجھے پڑھنے سے حاصل ہوسکتا ہے ؟ آپ کسی مصنف سے یہ کہئے کہ میں تمہاری کتاب کے ایک لفظ کو بھی نہیں سمجھتا لیکن اس کے باوجود ہر روز اسے پڑھتا ہوں۔ حتیٰ کہ مجھے وہ زبان بھی نہیں آتی جس میں تم نے یہ کتاب لکھی ہے۔ اس کے باوجود اس کتاب کو دہراتا رہتا ہوں۔ آپ خود ہی سوچئے کہ وہ مصنف آپ کو کیا جواب دے گا ؟ یہ عقیدہ دراصل مسلمانوں کو قرآن سے الگ رکھنے کے لئے تراشا گیا تھا جو عجمی سازش کا نتیجہ ہے اور یہ عقیدہ یکسر غیر قرآنی ہے جو درحقیقت عہد سحر کی یادگار ہے۔ جب یہ سمجھا جاتا تھا کہ الفاظ (معانی نہیں) اپنے اندر تاثیر رکھتے ہیں۔ یہ قرآنی اعمال، تعویذ، نقوش، وظائف اور اد، سب اسی عقیدہ کی مستعار شکلیں ہیں (قرآنی فیصلے ص
103
) پھر یہی خیالات مقام حدیث کے ص
221
پر دہرائے گئے ہیں اور اس کے بعد قرآن سورتوں یا آیات کی تلاوت کی فضیلت کے متعلق چند احادیث درج کرکے ایسی احادیث کے موضوع ہونے کا تاثر دیا گیا ہے نیز یہی افکار اسباب زوال امت کے ص
59
پر بھی دیئے گئے ہیں اور دلیل میں یہ آیت بھی پیش کی گئی ہے : (يَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِھِمْ مَّا لَيْسَ فِيْ قُلُوْبِھِمْ ۭوَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُوْنَ
167
ۚ )
3
۔ آل عمران :
167
) وہ زبان سے وہ کچھ کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتا (اسباب زوال امت، ص
59
) جواب دینے سے پیشتر ہم جناب پرویز کی ہشیاری کی داد ضرور دینا چاہتے ہیں کہ جو آیت منافقوں سے تعلق رکھتی تھی اسے آپ نے اس مقام پر فٹ کر دکھایا ہے۔ یہ آیت ( یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ نَافَقُوْا) سے شروع ہوتی ہے اور اس آیت کے مندرجہ ٹکڑے کا مطلب یہ ہے کہ منافقوں کی سبان پر کوئی اور بات ہوتی ہے جبکہ دل میں کچھ اور ہوتا ہے یعنی جس بات کا وہ زبان سے اقرار کرتے ہیں ان کے دل اس سے منکر ہوتے ہیں لیکن بلاسوچے سمجھے یا منعی نہ سمجھنے کے باوجود قرآن پاک کی تلاوت کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے۔ اس لئے کہ ایسے شخص کے دل میں کچھ ہوتا ہی نہیں یا اگر کچھ ہوتا ہے تو صرف یہ کہ وہ اپنے پروردگار کے کلام کی تلاوت کر رہا ہے۔ اور یہ ایک اچھا باعث برکت وثواب عمل ہے۔ قرآن میں تلاوت قرآن پر بہت زور دیا گیا ہے۔ رسول اللہ کی سب سے پہلی ذمہ داری تھی کہ آپ امت پر اللہ کی آیات تلاوت کرتے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم تھا اور مسلمان مردوں اور عورتوں کو یہ بھی حکم تھا کہ وہ ان تلاوت شدہ آیات کو زبانی یاد کرلیا کریں۔ اللہ تعالیٰ ازواج النبی سے فرماتے ہیں : ( وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلٰى فِيْ بُيُوْتِكُنَّ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ وَالْحِكْمَةِ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِيْفًا خَبِيْرًا
34
)
33
۔ الأحزاب :
34
) اور تمہارے گھروں میں جو اللہ کی آیات و حکمت پڑھی جاتی ہیں، ان کو یاد رکھو اور یہ تو واضح ہے کہ آیات کو یاد رکھنے اور حفظ کرنے کے لئے ان آیات کو بار بار پڑھنا اور دور کرنا پڑتا ہے اور بار بار تلاوت کرنے کا مقصد غور و تدبر ہی نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صحابہ کو قرآنی آیات سکھلاتے بھی تھے، پڑھاتے بھی تھے، یاد بھی کرواتے تھے، پھر ان سے سنتے بھی تھے، انھیں سناتے بھی تھے، تب جاکر صحابہ کو حفظ اور ضبط ہوتا تھا۔ حفظ کرتے وقت جو تکرار، اعادہ یا دور کہا جاتا ہے اس کا مقصد غور و تدبر کرنا نہیں ہوتا بلکہ حفظ ہی ہوتا ہے اب حفظ کرنے کے لئے آیات کی جو بار بار تلاوت کی جاتی ہے، وہ اگرچہ بلاسوچے سمجھے ہوتی ہے تاہم یہ ایک بہت بڑی دینی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ یعنی قرآن سینوں میں محفوظ ہوجاتا ہے۔ لہذا یہ ایک مستحسن فعل ہوا۔ خواہ یہ حفظ کرتے وقت طوطے کی طرح رٹنا ہی پڑے۔ نبوت کے ابتدائی ایام میں ہی سورة مزمل نازل ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کو مخاطب کرکے فرمایا : ( اَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلًا ۭ )
73
۔ المزمل :
4
) اور قرآن کو خوب حسن تناسب سے پڑھا کرو رتل کا معنی کسی چیز کا حسن تناسب کے ساتھ مرتب اور منظم ہونا ہے۔ (مفردات) پھر اس میں کسی عبارت کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا، حسن ادائیگی الفاظ اور خوش آوازی یا خوش الحانی سب شامل ہوتے ہیں۔ اگر ہم قرآن کو محض ایک قانون اور ضابطہ حیات کی کتاب ہی تصور کریں تو پھر قانون کی کتاب پڑھنے کے لئے ایسی ہدایات کی کیا ضرورت ہے ؟ قانون کی کتاب میں غور و فکر کرنے کے لئے الفاظ کو بلند آواز سے پڑھنے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی چہ جائیکہ اسے ترتیل سے پڑھا جائے۔ علاوہ ازیں قرآن میں کچھ ایسی متشابہ آیات بھی ہیں جن کی تاویل اللہ ہی جانتا ہے یا پھر کچھ راسخون فی العلم جان سکتے ہیں۔ عام لوگ جن کی ہر دور میں اکثریت ہوتی ہے، اس کے مفہوم و معانی اور صحیح تاویل و تعبیر تک پہنچ ہی نہیں سکتے۔ اور ایسی آیات کے مفہوم و معافی کے پیچھے پڑنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے فتنہ پرور قرار دیا ہے۔ اور صفات الٰہی سے تعلق رکھنے والی تقریباً سب آیات اسی قبیل سے ہیں۔ پھر قرآن میں حروف مقطعات بھی اسی قبیل سے ہیں جن کا انسان کی عملی زندگی سے کچھ بھی تعلق نہیں، نہ ہی ان کا صحیح مفہوم معلوم ہوسکا ہے۔ اب اگر قرآن کو صرف قانون اور ضابطہ حیات کی کتاب ہی سمجھا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن میں ایسی آیات کی کیا ضرورت تھی ؟ یا کیا تلاوت قرآن کرتے وقت ایسی آیات کو چھوڑ دینا چاہئے ؟ یہ باتیں اس چیز پر واضح دلیل ہیں کہ قرآن پاک کو سمجھنے اور عمل کرنے کے علاوہ صرف تلاوت بھی انتہائی ضروری ہے۔ اب رہی یہ بات کہ آیا قرآن کے الفاظ میں کوئی تاثیر ہے یا نہیں ؟ جسے پرویز صاحب عہد سحر سے منسلک فرما رہے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم قرآن کے الفاظ کی تاثیر کے بھی قاول ہیں اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں :
1
۔ قرآن کسی انسان کا کلام نہیں، بلکہ اس کے الفاظ کی بندش اور فصاحت و بلاغت کا یہ عالم ہے کہ فصحاء اور بلغاء عرب بار بار کے چیلنج کے باوجود اس جیسا کلام لانے سے قاصر رہے لہذا اسے عام انسانی تصانیت کے مثل قرار دینا بہت بڑی جسارت ہے۔ جیسا کہ پرویز صاحب نے کسی مصنف کی کتاب کی بلاسوچے سمجھے پڑھنے کی مثال دی ہے۔
2
۔ کفار مکہ میں سے اکثر فصحائے عرب تھے۔ ان میں شاعر بھی موجود تھے۔ وہ قرآن کی آیات کو سنتے اور خوب سمجھتے تھے کیونکہ ان کی زبان عربی تھے۔ وہ دل سے قرآن کے مخالف بھی تھے۔ پھر بھی قرآں کے الفاظ کی اعجازی حیثیت ان کو مسحور کردیتی تھی۔ آخر یہ کیا بات تھی کہ وہ اپنی لگائی ہوئی پابندیوں کے علی الرغم رات کو پہروں چوری چھپے قرآن سنتے تھے ؟ کیا یہ الفاظ ہی کی تاثیر نہ تھی ؟
3
۔ الفاظ کی اس اعجازی حیثیت کا پرویز صاحب خود بھی ایک دوسرے مقام پر زیر عنوان مشاعرے بدیں الفاظ اقرار کرتے ہیں : آپ کسی شاعر سے کہئے کہ جو کچھ آپ نے نظم میں لکھا ہے اسے ذرا نثر میں پڑھ کر سنائیے، پھر دیکھئے اس کے جذبات کا کیا عالم ہوتا ہے۔ غور کیجئے، کتنا بڑا ہے یہ سحر جس کی رو سے محض الفاظ کے ادھر ادھر رکھ دینے سے آپ کے تاثرات بدل جاتے ہیں۔ (قرآنی فیصلے، ص
305
) اب اگر کسی عام شاعر کی نظم میں الفاظ کی بندش میں یہ تاثیر ممکن ہے تو کیا قرآن کے الفاظ کی بندش میں اتنی بھی تاثیر نہیں اور ایسی تاثیر شعر ہی میں نہیں نثر میں بھی ممکن ہے۔ قرآن مجید شاعرانہ بیہودگی سے یکسر پاک ہے تاہم اس کی اعجازی حیثیت مسلمہ ہے اور اس کی تاثیر کی بھی۔
4
۔ رجز (جنگی گیت) اور حدی کا اثر اونٹ وغیرہ پر بھی ہونا مشاہدات سے ثابت ہے۔ حالانکہ اونٹ نہ وہ زبان جانتا ہے نہ اس کا مطلب سمجھتا ہے تاہم متاثر ضرور ہوجاتا ہے تو کیا اونٹ میں بھی کوئی عجمی سازش کام کررہی ہوتی ہے ؟ اسی مضمون سے متعلق ایک لطیفہ یاد آگیا۔ کوئی صاحب قرآن کے الفاظ کی تاثیر کے قائل نہ تھے اور اسی موضوع پر اپنے ایک دوست سے بحث فرما رہے تھے۔ اس دوست نے جواب میں صرف اتنا ہی کہہ دیا کہ تم تو نرے گدھے ہو۔ اس بات پر وہ صاحب سیخ پا ہوگئے اور غصہ کی وجہ سے چہرہ تمتا اٹھا اور اپنے دوست کو بدتمیزی کے القابات سے نوازنے لگے۔ دوست نے بڑے آرام سے کہا کہ اگر الفاظ میں کچھ تاثیر نہیں ہوتی تو آپ اس قدر برہم کیوں ہوگئے ؟ آپ فی الواقع کوئی گدھا بن تو نہیں گئے۔ یہ جواب سن کر وہ صاحب کچھ گھسیانے سے ہوگئے اور غصہ بھی فرو ہوگیا۔ بلا سوچے سمجھے تلاوت کرنا اگرچہ کوئی بامقصد عمل نہیں کہلاسکتا تاہم اس سے بھی تین فائدے حاصل ہوتے ہیں :
1
۔ تلاوت کرنے والا جب تک تلاوت میں مشغول رہے گا دوسری خرافات سے محفوظ رہے گا۔
2
۔ جو شخص اس بلاسوچے سمجھے تلاوت کو اپنا معمول بنا لے گا کسی نہ کسی دن ضرور وہ اس کا مفہوم سمجھنے کی بھی کوشش کرے گا۔
3
۔ کلام الٰہی اگر ترتیل سے کی جائے تو کائنات کی کئی دوسری اشیاء بھی اس سے اثر قبول کرتی اور ساتھ ہم آہنگ ہوجاتی ہیں۔ داؤد جب زبور کی آیات تلاوت فرماتے تو پہاڑ اور پرندے بھی آپ کی ان تسبیحات سے مسحور ہو کر ان میں شامل ہوجاتے تھے جیسا کہ ارشاد باری ہے : (وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا ۭيٰجِبَالُ اَوِّبِيْ مَعَهٗ وَالطَّيْرَ ۚ وَاَلَنَّا لَهُ الْحَدِيْدَ
10
ۙ )
34
۔ سبأ :
10
) اور ہم نے اپنی طرف سے داؤد کو برتری بخشی تھی کہ اے پہاڑو اور پرندو ! (جب داؤد زبور کی تلاوت کریں تو) تم بھی اس کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاؤ بالکل ایسا ہی مضمون سورة انبیاء کی آیت نمبر
79
اور سوہ کی آیت نمبر
19
میں بھی مذکور ہے۔ ان آیات میں جبال یا پہاڑ جمادات سے اور پرندے حیوانات سے تعلق رکھتے ہیں گویا یہ سب چیزیں آیات الٰہی کی تلاوت سے اثر پذیر ہوتی ہیں۔ حالانکہ وہ نہ ان کے معنی سمجھ سکتی ہیں اور غور و فکر کرسکتی ہیں۔ ان تمام تصریحات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگرچہ کریم کی تلاوت کا اصل مقصد اسے سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہے تاہم قرآن کے الفاظ کی بندش میں بلا کی تاثیر ہے۔ جس سے انکار ناممکن ہے۔ لہذا اگر تلاوت کرنے والا اس کے مفہوم کو نہ جانتا ہو تب بھی اسے اس کی تلاوت سے کئی طرح سے فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ رہا مسئلہ قرآنی عملیات، نقوش، تعویذات اور اوراد وغیرہ کا تو ان باتوں کا ثبوت کتاب و سنت میں کہیں بھی نہیں ملتا۔ لہذا یہ افعال بدعیہ اور شرکیہ ہیں اور ایسی باتوں کا اگر پرویز صاحب عہد سحر سے تعلق قائم کرنا چاہیں تو بصد شوق ایسا کرسکتے ہیں۔
73
اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے نماز میں تاثیر ہی یہ رکھ دی ہے کہ اس سے بےحیائی اور برے کاموں کا ارادہ ختم ہوجاتا ہے۔ جیسے پانی میں اللہ نے یہ تاثیر رکھ دی ہے کہ وہ پیاس کو بجھا دیتا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ نماز سے مطلوب یہ ہے کہ نمازی بےحیائی اور برے کاموں سے باز آجائے۔ اور یہ دونوں مطلب درست ہیں بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ دونوں مطالب کا مفہوم بالآخر ایک ہی بن جاتا ہے تو بھی درست ہے۔ اب آپ نماز کے ارکان پر اور جو کچھ نماز میں پڑھا جاتا ہے اس پر غور کریں تو از خود بخود یہ واضح ہوجاتا ہے کہ جو شخص نماز بھی پڑھتا رہے اور اس سے بےحیائی اور برائیاں بھی دور نہ ہوں تو وہ محض بےسوچے سمجھے اور عادتاً نماز ادا کرتا ہے۔ بھلا جس کی نماز کی ہر رکعت میں دل کی توبہ سے اللہ کے سامنے شرک سے برات کا اور دوسروں سے استمداد سے برات کا اقرار کیا جائے ایسا شخص بھی شرک میں مبتلا رہ سکتا ہے اور جس نماز کی رکعت میں اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی جائے وہ نماز سے برے اور بےحیائی کے کاموں سے بچنے کی کوشش نہ کرے گا اور جو انسان اپنی نماز کی ہر رکعت میں اللہ سے سیدھے راستے پر گامزن رہنے کی دعا کرتا ہے۔ وہ برے کام اور بےحیائی کے کام کیسے کرسکتا ہے ؟ غرض نماز میں اللہ کے سامنے اقرار اور اس کے حضور دعاؤں پر جتنا بھی غور کیا جائے تو یہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ صحیح طریقہ سے نماز کو ادا کرنے والا لازماً برے کاموں سے رک جائے گا اور اگر نہیں رکتا تو اس کا منطقی نتیجہ یہی ہے کہ وہ نماز ٹھیک طرح ادا نہیں کرتا۔ وہ نماز میں اللہ کی یاد سے غافل اور دوسرے دنیوی خیالات میں منہمک رہتا ہے۔ اور ایسی نماز منافق کی نماز ہوتی ہے۔ مومن کی نہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے نمازیوں کو بھی برے انجام کی تنبیہ فرمائی ہے۔ جو اپنی نماز میں اللہ کی یاد سے غافل رہتے ہیں۔ (
108
:
4
،
5
)
74
اس جملہ کے بھی کئی مطلب ہیں ایک یہ کہ تمام تر عبادتوں کی روح رواں اللہ کی یاد ہی ہے۔ اللہ سے ہی انسان غافل ہو تو انسان عبادت کر کیسے سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ تمام عبادت اسی صورت میں بطریق احسن سرانجام دی جاسکتی ہیں کہ اس عبادت کے دوران اللہ کی یاد سے غافل نہ ہو۔ تیسرا مطلب یہ ہے، اللہ کو یاد کرنا، زبان سے اللہ اللہ کہنا اور دل میں ہر وقت اللہ کو یاد رکھنا بذات خود بہت بڑا نیکی کا کام ہے۔ اور اس مطلب کا تائید درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے : حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ کو چکی سے آٹا پیسنے سے بہت تکلیف ہوگئی۔ انھیں خبر ملی کہ آپ کے پاس کچھ قیدی آئے ہیں۔ (غنیمت سے جس کا پانچواں حصہ آپ کے لئے مختص اور اس کی تقسیم آپ کی صوابدید پر منحصر تھی) وہ آپ کے پاس تشریف لائیں تاکہ آپ سے ایک لونڈی یا غلام کا مطالبہ کریں۔ اتفاق سے آپ گھر پر نہ ملے تو انہوں نے یہ بات حضرت عائشہ ؓ سے کہہ دی۔ جب آپ تشریف لائے تو حضرت عائشہ ؓ نے انھیں بتلایا کہ آپ اسی وقت (رات کو ہی) ہمارے ہاں تشریف لائے جبکہ ہم بستروں پر لیٹ چکے تھے۔ ہم نے اٹھنا چاہا مگر آپ نے فرمایا : لیٹے رہو (آپ میرے اور حضرت فاطمہ کے درمیان بیٹھ گئے) میں نے آپ کے پاؤں کے ٹھنڈک اپنے سینے پر محسوس کی۔ آپ نے فرمایا : کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو اس سے بہتر ہے جو تم نے مانگی تھی ؟ (اور وہ یہ ہے کہ) جب تم اپنے بستروں پر جاؤ تو اللہ اکبر
34
بار، الحمدللہ
33
بار اور سبحان اللہ
33
بار کہہ لیا کرو۔ یہ تمہارے لئے اس چیز سے بہتر ہے جس کا تم نے سوال کیا تھا (بخاری۔ کتاب الجہاد والسیر۔ باب الخمس لنوائب رسول اللہ ) اور چوتھا مطلب یہ ہے کہ اگر بندہ اللہ کو یاد کرے تو اللہ بھی بندے کو یاد کرتا ہے (
2
:
152
) اور ظاہر ہے کہ اللہ کا بندے کو یاد کرنا بہت بڑی چیز ہے۔
75
یعنی اللہ اسے بھی جانتا ہے جو اس کے ذکر سے رطب اللسان رہتا ہے اور اسے بھی جو اس کی یاد سے غافل رہتا ہے۔ پھر ہر ایک سے اس کے عمل کے مطابق سلوک کرے گا۔
Top