Baseerat-e-Quran - At-Tawba : 90
وَ جَآءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ لِیُؤْذَنَ لَهُمْ وَ قَعَدَ الَّذِیْنَ كَذَبُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ١ؕ سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
وَجَآءَ : اور آئے الْمُعَذِّرُوْنَ : بہانہ بنانے والے مِنَ : سے الْاَعْرَابِ : دیہاتی (جمع) لِيُؤْذَنَ : کہ رخصت دی جائے لَهُمْ : ان کو وَقَعَدَ : بیٹھ رہے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَذَبُوا : جھوٹ بولا اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول سَيُصِيْبُ : عنقریب پہنچے گا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا مِنْهُمْ : ان سے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اور کچھ دیہاتیوں میں سے بہانے بناتے آئیں گے تاکہ آپ ان کو اجازت دے دیں اور وہ ان لوگوں کے ساتھ بیٹھے رہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو جھٹلایا ہے ان میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 90 تا 93 المعذرون (معذرت پیش کرنے والے) الاعراب (دیہاتی) لبوذن (تاکہ اجازت دی جائے) سیصیب (جلد ہی پہنچے گا) الضعفآء (کمزور، ضعیف) المرضی (مریض) لایجدون (وہ نہیں پاتے ہیں) حرج (گناہ، تنگی) نصحوا (نصیحت کی، انہوں نے نصیحت کی) المحسنین (نیکو کار) اتوک (تیرے پاس آئے) لتحمل (تاکہ تو سوار کرا دے) لا اجد (میں نہیں پاتا ہوں ) اعین (عین) ، آنکھیں تفیض (بہہ رہی ہیں ) الدمع (آنسو) حزن (رنج و غم) الایجدوا (یہ کہ وہ نہیں پا رہے ہیں) السبیل (راستہ، الزام) اغنیآء (مالدار ہیں) تشریح : آیت نمبر 90 تا 93 اعراب، اعرابی کی جمع ہے۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو شہروں کے باہر چھوٹی چھوٹی جگہوں پر رہتے ہیں گاؤں دیہات ان کا مسکن ہوتا ہے۔ شہر کے لوگ پھر بھی علم، تہذیب اور شائستگی سے قریب ہوتے ہیں لیکن جو لوگ دیہات اور چھوٹی جگہوں پر ہوتے ہیں ان کی تعلیم و تربیت شہریوں سے مختلف ہوتی ہے ان کے رہنے سہنے کے طریقے ان میں وہ مزاج پیدا نہیں کرتے جو مناسب فضا میسر ہونے پر انسان کو شہروں میں حاصل ہوتے ہیں۔ دیہاتیوں کے طریقے ان میں وہ مزاج پیدا نہیں کرتے جو مناسب فضا میسر ہونے پر انسان کو شہروں میں حاصل ہوتے ہیں۔ دیہاتیوں کی دوسری خصوصیت ان کی سادگی اور سادہ مزاجی بھی ہوتی ہے ان کو ” اعراب “ کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم کی ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقت کا مرض صرف شہروں تک محدود نہ تھا بلکہ بعض بدوی اور اعرابی بھی اس مرض میں مبتلا تھے جب ان سے غزوہ تبوک کے موقع پر جہاد میں چلنے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے اپنی غربت، پریشانیوں، موسم کی سختی، جنگوں کی ناتجربہ کاری فصلوں کی تیاری جیسے سیکڑوں عذر پیش کردیئے اور اس جہاد میں اگر انہوں نے کچھ دیا بھی تو اس کو اس طرح پیش کیا جیسے وہ کسی سزا کا جرمانہ ادا کر رہے ہیں فرمایا کہ یہ لوگ ہر وقت اس فکر میں رہتے ہیں کہ اہل ایمان حالات کے بھنور میں پھنس جائیں تو زیادہ بہتر ہے۔ لیکن ان میں جو اہل ایمان ہیں یعنی اللہ پر قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں وہ اپنے ہر خرچ کو اللہ سے قریب ہونے کے تصور کے ساتھ پیش کرتے ہیں اور ہر وقت اللہ کے رسول ﷺ کی دعاؤں کے طلب گار رہتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ ان لوگوں کو واقعی اللہ کا قرب حاصل ہوگا وہ اس کی رحمت کے مستحق ہوں گے۔ اللہ کو بہت جلد اپنی رحمت میں شامل فرمائے گا اور اپنی مغفرت اور رحمت سے نوازے گا۔ اللہ نے فرمایا کہ یہ منافقین تو ہزاروں بہانے اور حیلے کر کے اپنے آپ کو مطمئن کرچکے ہیں لیکن ان کا انجام بہت خراب ہے جو وہ اس دنیا میں اور آخرت میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ البتہ وہ لوگ جن کو واقعی عذر ہے وہ اگر جہاد میں جانے سے عذر پیش کریں تو اللہ کے پاس ان کا عذر قبول ہوگا اور انپر جہاد کی شرکت نہ کرنے پر کوئی عذر نہیں ہوگا یہ وہ لوگ ہیں جو بہت کمزور، اپاہج یا مجبور ہیں ان کے پاس جنگی ہتھیار یا وسائل نہیں ہیں اگر وہ جہاد میں شرکت نہیں کرتے تو ان سے کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ دراصل مواخذہ تو ان لوگوں سے ہوگا جو مال دار، صاحب حیثیت، صحتمند ہیں جو جہاد میں شرکت کرسکتے ہیں مگر پھر بھی وہ طرح طرح کے عذر پیش کر کے جہاد سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں ایک بات غور کرنے کی ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے تبوک کے موقع پر جہاد میں جانے پر رضا مندی کے بجائے طرح طرح کے عذر پیش کئے ان پر مسلسل آیات میں جہنم کی وعیدیں آرہی ہیں وجہ کیا ہے ؟ جہاں تک وجہ کا تعلق ہے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جہاد ایک ایسی عبادت ہے جس میں ہر صاحب ایمان شخص کی شرکت لازمی اور ضروری ہے اس سے سوائے ان لوگوں کے جو واقعی جہاد میں شرکت کرنے کے قابل نہیں ہیں اور کسی کے لئے معافی نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا اس کو منسوخ کرنے کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے۔ قرآن کریم نے جہاد پر اتنا زور اسی لئے دیا ہے تاکہ قیامت تک کسی کو جہاد سے جی چرانے کی ہمت نہ ہو۔ مسلمانوں کا یہ وہ عظیم جذبہ ہے جس سے ساری دنیا کا نپتی ہے اسی لئے ہر دور میں کفار و مشرکین نے اس بات کی کوشش کی یہ کہ کسی طرح مسلمانوں کے دلوں میں جہاد کی عظمت کو کم کیا جائے تاکہ ملت اسلامیہ کی جو روح ہے وہ نکل جائے۔ اس کے برخلاف الحمد للہ تمام مسلمانوں نے ہمیشہ اس حکم پر لبیک کہا ہے اور قیامت تک کہتے رہیں گے۔ لیکن مرزا غلام احمد قادیانی نے انگریزوں کا حق نمک ادا کرتے ہوئے جہاد کو یہ کہہ کر ختم کردیا ہے کہ اب اس کی ضرورت نہیں ہے اور میں جہاد کو منسوخ کرتا ہے۔ درحقیقت مرزا نے جہاد کا نہیں بلکہ قرآن کریم کی ان آیات کا انکار کیا ہے جو قرآن کریم میں ایک دو جگہ نہیں بلکہ متعدد مقامات پر جہاد سے متعلق آیات آئی ہیں۔
Top