Bayan-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 54
وَ مَكَرُوْا وَ مَكَرَ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ۠   ۧ
وَمَكَرُوْا : اور انہوں نے مکر کیا وَ : اور مَكَرَ : خفیہ تدبیر کی اللّٰهُ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ خَيْرُ : بہتر الْمٰكِرِيْنَ : تدبیر کرنیوالے ہیں
اب انہوں نے بھی چالیں چلیں اور اللہ نے بھی چال چلی اور اللہ تعالیٰ بہترین چال چلنے والا ہے
آیت 54 وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللّٰہُ ط یہود کے علماء اور فریسی حضرت مسیح علیہ السلام کے خلاف مختلف چالیں چل رہے تھے کہ کسی طرح یہ قانون کی گرفت میں آجائیں اور ان کا کام تمام کردیا جائے۔ ان لوگوں نے آنجناب علیہ السلام کو مرتد اور واجب القتل قرار دے دیا تھا ‘ لیکن ملک پر سیاسی اقتدار چونکہ رومیوں کا تھا لہٰذا رومی گورنر کی توثیق sanction کے بغیر کسی کو سزائے موت نہیں دی جاسکتی تھی۔ ملک کا بادشاہ اگرچہ ایک یہودی تھا لیکن اس کی حیثیت کٹھ پتلی بادشاہ کی تھی ‘ جیسے انگریزی حکومت کے تحت مصر کے شاہ فاروق ہوتے تھے۔ یہود کی مذہبی عدالتیں موجود تھیں جہاں ان کے علماء ‘ مفتی اور فریسی بیٹھ کر فیصلے کرتے تھے ‘ اور اگر وہ سزائے موت کا فیصلہ دے دیتے تھے تو اس فیصلے کی تنفیذ ‘ execution رومی گورنر کے ذریعے ہوتی تھی۔ اس صورت حال میں علماء یہود کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور وہ حضرت مسیح علیہ السلام کو رومی قانون کی زد میں لانے کے لیے اپنی سی چالیں چل رہے تھے۔ وہ آنجناب علیہ السلام سے اس طرح کے الٹے سیدھے سوالات کرتے کہ آپ علیہ السلام کے جوابات سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ یہ شخص رومی حکومت کا باغی ہے۔ یہود کی ان چالوں کا توڑ کرنے کے لیے اللہ نے اپنی چال چلی۔ اب اللہ کی چال کیا تھی ؟ اس کی تفصیل قرآن یا حدیث میں نہیں ہے ‘ بلکہ انجیل برنباس میں ہے جو پوپ کی لائبریری سے برآمد ہوئی تھی۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں میں سے ایک حواری یہودا کو یہود نے رشوت دے کر اس بات پر راضی کرلیا تھا کہ وہ آپ علیہ السلام کی مخبری کر کے گرفتار کرائے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی غدار حواری کی شکل حضرت مسیح علیہ السلام کی سی بدل دی اور وہ خود گرفتارہو کر سولی چڑھ گیا۔ حضرت مسیح علیہ السلام پر وہ ہاتھ ڈال ہی نہیں سکے۔ حضرت مسیح علیہ السلام ایک باغ میں روپوش تھے اور باغ کے اندر بنی ہوئی ایک کو ٹھڑی میں رات کے وقت عبادت میں مشغول تھے ‘ جبکہ آپ علیہ السلام کے بارہ حواری باہر موجود تھے۔ اس وقت وہ شخص وہاں سے چپکے سے سٹک گیا اور جا کر سپاہیوں کو لے آیا تاکہ آپ علیہ السلام کو گرفتار کرا سکے۔ یہ رومی سپاہی تھے اور قندیلیں لے کر آئے تھے۔ اس نے سپاہیوں سے کہا تھا کہ میں اندر جاؤں گا ‘ جس شخص کو میں کہوں اے ہمارے استادبس اسی کو پکڑ لینا ‘ وہی مسیح علیہ السلام ہیں۔ اس لیے کہ رومیوں کو کیا پتا تھا کہ مسیح علیہ السلام کون ہیں ؟ یہ شخص جیسے ہی کو ٹھڑی کے اندر داخل ہوا اسی وقت کو ٹھڑی کی چھت پھٹی اور چار فرشتے نازل ہوئے ‘ جو حضرت مسیح علیہ السلام کو لے کر چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی شکل تبدیل کردی اور حضرت مسیح علیہ السلام والی شکل بنا دی۔ اب یہ گھبرا کر باہر نکلا تو دوسرے حواریوں نے اس سے کہا اے ہمارے استاد ! یہ سنتے ہی سپاہیوں نے اسے قابو کرلیا اور اصل میں یہی شخص سولی چڑھا ہے ‘ نہ کہ حضرت مسیح علیہ السلام۔ یہ ساری تفاصیل انجیل برنباس میں موجود ہیں۔ یہ شہادت درحقیقت نصاریٰ ہی کے گھر سے ہمیں ملی ہے اور قرآن کا جو بیان ہے اس میں یہ پوری طرح فٹ بیٹھتی ہے کہ انہوں نے اپنی سی چالیں چلیں اور اللہ نے اپنی چال چلی۔
Top