Tafseer-e-Jalalain - Aal-i-Imraan : 54
وَ مَكَرُوْا وَ مَكَرَ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ۠   ۧ
وَمَكَرُوْا : اور انہوں نے مکر کیا وَ : اور مَكَرَ : خفیہ تدبیر کی اللّٰهُ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ خَيْرُ : بہتر الْمٰكِرِيْنَ : تدبیر کرنیوالے ہیں
اور وہ (یعنی یہود قتل عیسیٰ کے بارے میں ایک) چال چلے اور خدا بھی (عیسی کو بچانے کے لئے) چال چلا اور خدا خوب چال چلنے والا ہے
یہود کی عدالت میں عیسیٰ (علیہ السلام) کو سزائے موت : وَمَلکَرُوْا وَمَکَرَ اللہُ وَاللہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ ، اللہ کی طرف جو مکر کی نسبت کی گئی ہے یہ فن مشاکلت کے طور پر ہے۔ پہلے مکروا کے فاعل یہود ہیں، یہود کے اکابر اور سرداروں نے مخالفت اور ایذاء کے بہت سے درجے طے کرنے کے بعد بالآخر یہ طے کیا کہ یسوع نامی اسرائیلی مدعی نبوت کو ختم ہی کردینا چاہیے، چناچہ پہلے اپنی مذہبی عدالت میں الحاد کا الزام لگا کر آپ کو واجب القتل قرار دیا، پھر رومی حاکموں کی ملکی عدالت میں لاکر آپ پر بغاوت کا مقدمہ چلایا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے مخالفین کا یہ معرکہ ملک شام کے صوبہ فلسطین میں پیش آیا تھا شام اس وقت رومی سلطنت کا ایک جزو تھا، اور یہاں کے یہودی باشندوں کو اپنے معاملات میں نیم آزادی اور نیم خود مختاری حاصل تھی شہنشاہ رومہ کی طرف سے ایک نائب السلطنت (وائسرائے) سارے ملک شام کا تھا، اور اس کے ماتحت ایک والی یا امیر صوبہ فلسطین کا تھا، رومیوں کا مذہب شرک و بت پرستی تھا، یہود کو اتنا اختیار حاصل تھا کہ اپنے لوگوں کے مقامات اپنی مذہبی عدالت میں چلائیں، لیکن سزاؤں کے نفاذ کے لیے ان مقدمات کو ملکی عدالت میں لانا پڑتا تھا جرم الحاد میں قتل کا فتویٰ خود یہود کی عدالت دے سکتی تھی، اور اس نے اسی سزا کا حکم سنایا لیکن واقعۃً سزائے موت کا نفاذ صرف رومی ملکی عدالت کے ہاتھ میں تھا، اور سزائے موت رومی حکومت میں سولی کے ذریعہ دی جاتی تھی یہود کی اس گہری سازش کا تذکرہ قرآن مجید کے لفظ مکروا میں ہے۔ وَمَکَرَ اللہُ ، یعنی اللہ نے مخالفین اور معاندین کی ساری تدبیریں، ساری سازشیں الٹ دیں اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کو سولی کی موت سے بچا لیا۔
Top