Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 54
وَ مَكَرُوْا وَ مَكَرَ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ۠   ۧ
وَمَكَرُوْا : اور انہوں نے مکر کیا وَ : اور مَكَرَ : خفیہ تدبیر کی اللّٰهُ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ خَيْرُ : بہتر الْمٰكِرِيْنَ : تدبیر کرنیوالے ہیں
اور انہوں نے خفیہ چالیں چلیں تو اللہ نے بھی ان کا خفیہ توڑ کیا اور اللہ بہترین توڑ کرنے والا ہے۔
لفظ مکر کا اصلی مفہوم : ’ مکر ‘ کے معنی ہیں کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے کوئی مخفی تدبیر کرنا۔ اس میں مذمت کا پہلو یہاں سے پیدا ہوا کہ مخفی تدابیر کا استعمال آدمی کی کمزوری کی دلیل ہے۔ چونکہ عام طور پر صورت یہی ہوتی ہے کہ خفیہ تدبیریں کمزور لوگ ہی استعمال کرتے ہیں اس وجہ سے اس کی مذمت کا پہلو ذہنوں پر غالب ہوگیا اور یہ گمان کیا جانے لگا کہ مکر لازماً مذموم ہی ہوتا ہے۔ لیکن یہ بات حقیقت کے خلاف ہے۔ خفیہ تدبیر بعض حالات میں کسی مکر کرنے والے کے مکر کے توڑ یا اس کی سزا کے طور پر بھی استعمال کرنی پڑتی ہے۔ ایک خفیہ چالیں چلنے والے کے خلاف اگر کوئی علانیہ انتقامی کاروائی کی جائے تو وہ اس کو ظلم و زیادتی قرار دے گا اور حالات سے ناواقف اس کو حق بجانب ٹھہرائیں گے۔ اسی طرح کوئی مخفی تدبیر کسی سزاشی دشمن کے خلاف بعض اوقات اس کو متنبہ کرنے کے لیے اختیار کرنی پڑتی ہے تاکہ اس پر یہ ظاہر ہوجائے کہ اس کی ساشیں مخفی نہیں ہیں۔ جن کے لیے وہ یہ جال بن رہا ہے وہ اس کے اس جال سے واقف ہیں۔ یہ چیز اس کو رسوا بھی کرتی ہے اور آئندہ کے لیے اس کو ایسی حرکتوں سے باز رکھنے میں بھی مددگار ہوتی ہے بشرطیکہ اس کے اندر سبق حاصل کرنے کی صلاحیت ہو۔ یہاں جس مکر کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے اس سے مراد یہی مکر ہے جو حق کے دشمنوں کی سازشوں کے توڑ یا ان کی سرکوبی کے لیے اللہ تعالیٰ اختیار فرماتا ہے۔ یہ تدبیریں ایسی تیر بہدف ہوتی ہے کہ دشمنوں کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں اور ساتھ ہی ان سے خلق کو بیشمار برکتیں بھی حاصل ہوتی ہیں۔ وَاللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ سے اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہو رہا ہے۔ رہا یہ سوال کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا مسیح کو یہود کے شر سے بچانے کے لیے کیا تدبیر اختیار فرمائی تو اس کے جواب کے لیے موزوں موقع سورة نساء میں آئے گا۔ حضرات انبیاء کی زندگی کی ایک مشترک حقیقت : اس آیت میں جس بات کی طرف اشارہ ہے وہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کی زندگی کی ایک مشترک حقیقت ہے، تمام انبیاء کی زندگی شہادت دیتی ہے کہ جب انہوں اپنی قوم کے اعیان و اکابر سے مایوس ہو کر اپنی پوری توجہ اپنے غریب ساتھیوں اور قوم کے عام لوگوں پر مرکوز کی ہے اور ان کی دعوت ان لوگوں کے اندر اپنے اثرات پھیلانے لگی ہے تو یہ اعیان و اکابر اس چیز کو اپنے اقتدار کے لیے ایک شدید خطرہ سمجھ کر نبی کے خلاف مختلف قسم کی سازشوں میں مصروف ہوگئے ہیں تاکہ اس کے قتل کا کوئی بہانہ پیدا کر کے اپنے خیال کے مطابق اس مصیبت سے پیچھا چھڑائیں۔ یہ مرحلہ آزمائش یوں تو ہر نبی کی زندگی میں، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، پیش آیا ہے، لیکن ہم یہاں سیدنا مسیح سے متعلق یہود کے اعیان و اکابر کی بعض ساشوں کا ذکر کرتے ہیں۔ انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود کے علماء اور ان کے کاہنوں اور فقیہوں نے اس موقع پر آنحضرت ؑ کے خلاف مختلف قسم کے جال پھیلائے۔ ایک تو انہوں نے آپ پر اور آپ کے ساتھیوں پر اسلام کی روایات توڑنے اور بزرگوں کی توہین و تحقیر کا الزام لگایا تاکہ عوام کے جذبات ان کے خلاف بھڑکائے جاسکیں۔ دوسرا جال انہوں نے یہ بچھایا کہ اپنے مخصوص آدمی بھیج بھیج کر ان سے ایسے سوالات کیے جن کے جوابوں سے ان کے خلاف کفر و ارتداد کے فتوے کا مواد فراہم ہوسکے۔ یہ کام یہود کے فقیہوں اور فریسیوں نے بڑی سرگرمی سے انجام دیا اور سیدنا مسیح کی تمثیلوں اور تشبیہوں کے اندر سے انہوں نے اپنی دانست میں وہ مواد فراہم کرلیا جس کی بنیاد پر ان کے واجب القتل ہونے کا فتوی دیا جاسکے۔ تیسرا یہ کہ اس زمانے میں چونکہ ملک پر سیاسی اقتدار رومیوں کا تھا اس وجہ سے ان کو بھڑکانے کے لیے مواد فراہم کرنے کی کوشش کی گئی۔ پہلے تو خراج کی ادائیگی سے متعلق سیدنا مسیح ؑ سے سوالات کیے گئے جن سے یہ ثابت ہوسکے کہ یہ شخص لوگوں کو قیصر کو خراج دینے سے روکتا ہے۔ لیکن اس قسم کے والوں کے جواب سیدنا مسیح نے ایسے دندان شکن دئیے کہ علمائے یہود اپنا منہ لے کر رہ گئے۔ پھر انہوں نے یہ الزام لگایا کہ یہ شخص اسرائیل کا بادشاہ ہونے کا مدعی ہے۔ اس کے لیے حضرت مسیح کے بعض تمثیلی اقوال سے مواد حاصل کرنے اور اس کے ذریعہ سے رومی حکومت کو بھڑکانے کی کوشش کی گئی۔ چوتھی تد یہ کی گئی کہ سیدنا مسیح کے بارہ شاگردوں میں سے ایک شاگرد یہودا کو، جو منافق تھا، یہود نے رشوت دے کر اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ آنحضرت ؑ کی مخبری کرے اور ان کو گرفتار کرائے۔ ان تمام سازشوں کی تفصیل انجیلوں میں موجود ہے۔ اگر طوالت کا اندیشہ نہ ہوتا تو ہم یہ سارا مواد ایک مناسب ترتیب کے ساتھ یہاں جمع کردیتے لیکن بہتر یہی معلوم ہوا کہ جس طرح قرآن نے صرف اشارے پر اکتفا کیا ہے اسی طرح ہم بھی اشارات ہی پر اکتفا کریں۔ پیغمبر کی زندگی کا یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جس میں وہ قوم کو چھوڑ کر اور اپنے دشمنوں سے اعلان براءت کر کے ہجرت کرتا ہے اور یہ ہجرت مختلف شکلوں میں، جن کی تفصیل اپنے مقام میں آئے گی، ظاہر ہوتی ہے۔
Top