Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 54
وَ مَكَرُوْا وَ مَكَرَ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ۠   ۧ
وَمَكَرُوْا : اور انہوں نے مکر کیا وَ : اور مَكَرَ : خفیہ تدبیر کی اللّٰهُ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ خَيْرُ : بہتر الْمٰكِرِيْنَ : تدبیر کرنیوالے ہیں
اور یہود ایک چال چلے اور اللہ تعالیٰ ان کو توڑ کے لئے دوسری چال چلا اور اللہ تعالیٰ تمام چال چلنے والوں میں بہتر چال چلنے والا ہے۔2
2 ۔ اور بنی اسرائیل کے ان لوگوں نے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مخالف اور ان کی نبوت کے منکر تھے ایک چال چلی اور خفیہ تدبیر کی اور اللہ تعالیٰ بھی ان کو شکست دینے کی غرض سے ایک چال چلا اور ان کے جواب میں اس نے بھی ایک خفیہ تدبیر کی اور اللہ تعالیٰ تمام تدبیر کرنیوالوں میں بہتر اور عمدہ تدبیر کرنے والا ہے ( تیسیر) مخالفوں کی تدبیر یہ تھی کہ حضر ت عیسیٰ (علیہ السلام) کو گرفتار کرایا اور سولی پر چڑھانے کا سامان کیا اور یہ چاہا کہ حضر ت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ہلاک کردیں اور اللہ تعالیٰ کی تدبیر یہ کہ ان کو مع الخیر آسمان پر اٹھا لیا اور ان کے مخالفوں میں سے ایک شخص کو ان کی ہم شکل اور ان کا مشابہ کردیا جس کو انہوں نے سولی پر چڑھا دیا ۔ اور ان کو اس تبدیلی کی خبر بھی نہیں ہوئی اسی کو فرمایا اللہ تعالیٰ بہترین تدبیر کرینوالا ہے کیونکہ اس کی چال اور اس کی تدبیر سب کی تدبیر اور چالوں پر غالب ہوتی ہے۔ مکر کسی شخص کو حیلہ بہانہ سے ایسی چیز کی طرف کھینچ لانا جو اس کو نقصاندہ ہو ۔ راغب نے کہا کسی شخص کو حیلہ بہانہ سے اس کے مقصد اور ارادے سے پھیر دینا، یہ مکر کسی اچھی غرض کے لئے کیا جائے تو محمود ہے اور کسی برے مقصد کیلئے کیا جائے تو مذموم ہے۔ جیسے سورة فاطر میں فرمایا ولا یحیق المکرالسیئی الا باھلہ عام طریقہ سے قرآن میں مکر اور کیہ کفار کی ان سازشوں پر بولا گیا ہے جو وہ اپنے اپنے پیغمبروں کے خلاف کیا کرتے تھے۔ عزیز مصر کی بیوی کے ساتھ جن عورتوں نے یوسف (علیہ السلام) کو آمادہ کرنی کی چال چلی ان کی چال کو بھی مکر فرمایا ہے۔ حضرت حق جل مجدہٗ کافروں کی سازشوں کو نا کام کردیا ہے اس لئے اس کی جانب بھی مکر اور کید کی نسبت جواباً اور جزاء کردی جاتی ہے نیز اس لئے کہ ان کا مکر محمود ہے کیونکہ ان کا مکر انبیاء کی حمایت و حفاظت اور کفار کو نا کام کرنے کے لئے ہوتا ہے اور چونکہ ان کی گرفت اچانک اور بےسامان و گمان ہوتی ہے اور ان کو پکڑنے مجرم فرار نہیں ہوسکتا ۔ اس لئے خیر الماکرین فرمایا یعنی ان کا مکر نہایت قوی نہایت مضبوط اور نہایت خفیہ ہوتا ہے ۔ اور یہ بالکل ایسا ہی محاور ہ ہے جیسے کوئی بادشاہ باغیوں پر قابو پانے کے بعد کہتا ہے کہ تم لوگ تو میری سلطنت کا تختہ الٹنے کی ترکیب اور ترتب کر ہی رہے تھے مگر میں نے ایسا دائو کیا کہ تم سب کو گرفتار کرلیا ۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم نے تمہاری سازش اور تمہاری تدبیر کو اپنی سازش اور تدبیر سے خاک میں ملا دیا ہم پہلے پارے میں بھی اس بحث کو تفصیلاً عرض کرچکے ہیں آگے بھی اکثر مقامات پر یہ چیزیں آئیں گی۔ مثلاً یحذعون اللہ وھو خادعھم نسو اللہ فنیھم وغیرہ یہ تمام افعال محض مقابلۃ حضرت حق کی طرف نسبت کئے جاتے ہیں ۔ آیت زیر بحث میں بھی یہی شان ہے کہ مسیح کے مخالفوں نے حکومت میں ان کی غلط سلط شکایتیں کر کے ایک یہودی بادشاہ سے ان کی سولی کا حکم حاصل کرلیا اور ان کو ایک مکان میں محصور کردیا ۔ جب سولی کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا اور ایک شخص جس کا نام طیطانوس تھا وہ ان کو ہم شکل کردیا گیا ۔ لوگ اس کو پکڑ لائے اور اس کی چیخ و پکار پر توجہ نہ کی اور اس کی سولی پر چڑھا دیا اور اس کے ساتھ ہر قسم کا سفا کانہ برتائو کیا اور سب کچھ کرنے کے بعد یہ احساس ہوا کہ صلیب زدہ اگر عیسیٰ تھا تو طیطانوس کہاں ہے اور اگر صلیب زدہ طیطیانوس تھا تو عیسیٰ (علیہ السلام) کہاں گئے پھر اس کے بعد مختلف روایتیں بنی اسرائیل میں مشہور ہوگئیں ۔ قرآن نے ان سب غلط واقعات کا رد کردیا اور جو صحیح چیز تھی وہ ظاہر کردی اور یہ بتادیا کہ یہود کے تمام منصوبے خاک میں ملا دیئے گئے ، نہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرسکے اور نہ صلیب دے سکے بلکہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر کار گر ہوئی کہ وہ ان کو صحیح سلامت اپنی حفاظت میں لے گیا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہود کے عالموں نے اس وقت کے بادشاہ کو بہکایا کہ یہ شخص ملحد ہے توریت کے حکم سے خلاف بتاتا ہے ۔ اس نے لوگ بھیجے کہ ان کو پکڑ لاویں ۔ جب وہ پہنچے حضرت عیسٰی (علیہ السلام) کییار سرک گئے ۔ اس شنابی میں حضرت حق تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر اٹھا لیا اور ایک صورت ان کی رہ گئی اسکو پکڑ لائے پھر سولی پر چڑھایا۔ ( موضح القرآن) اس واقعہ کی زیادہ تفصیل تو انشاء اللہ چھٹے پارے میں آئے گی ۔ یہاں صرف ان پیشین گوئیوں کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس رات ان کو بتائیں جس رات بعض ان کے معتمد لوگوں نے ان کو گرفتار کرایا اور حکومت کے مقابلے میں بزولی کا ثبوت دیا اور معمولی سے نفع پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا پتہ بتادیا ۔ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے اپنوں نے اس قسم کی بیوائی کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اطمینان دلایا ، چناچہ ارشاد فرماتے ہیں۔ (تسہیل)
Top