Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 54
وَ مَكَرُوْا وَ مَكَرَ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ۠   ۧ
وَمَكَرُوْا : اور انہوں نے مکر کیا وَ : اور مَكَرَ : خفیہ تدبیر کی اللّٰهُ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ خَيْرُ : بہتر الْمٰكِرِيْنَ : تدبیر کرنیوالے ہیں
اور ان لوگوں نے (جو کہ آپ کے منکر اور دشمن تھے آپ کے قتل و قید کیلئے) خفیہ تدبیریں کیں، اور اللہ نے بھی ان کے جواب میں خفیہ تدبیر فرمائی، اور اللہ خفیہ تدبیر کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے،
119 " مکر اللہ " کا معنی و مطلب ؟ : یعنی ان لوگوں کی چال کے مقابلے میں جو چال اللہ نے چلی اس کی بناء پر یہ ہمیشہ کے عذاب میں مبتلا ہوگئے کہ اس کی خفیہ تدبیر کا نہ کوئی مقابلہ کرسکتا ہے، نہ کوئی توڑ، اور نہ اس کو کوئی سمجھ ہی سکتا ہے۔ عام طور پر اردو محاورے اور ہمارے معاشرے میں لفظ ِ " مکر " چونکہ برے معنی میں استعمال ہوتا ہے، اس لئے قرآن حکیم میں وارد ایسے الفاظ و کلمات سے کچھ لوگوں کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں، اور ان کو اچنبھا ہونے لگتا ہے کہ اللہ پاک ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ " مکر " کیسے کرسکتا ہے۔ اور اس کو " مکر " کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ اور وہ { خَیرُالمَاکِرِیْنَ } کیسے ہوسکتا ہے ؟ ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ مگر واضح رہے کہ عربی زبان و محاورہ میں یہ لفظ ایسے معنی میں استعمال ہوتا ہی نہیں، جس میں یہ ہماری زبان اور ہمارے محاورے میں استعمال ہوتا ہے، بلکہ عربی زبان و محاورہ میں یہ لفظ دراصل دوسرے شخص کے ارادہ و پروگرام کے توڑ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، اور ایسے طریقے کے ساتھ کہ اس کو پتہ بھی نہ چلنے پائے۔ چناچہ محققین کے یہاں اس کی تعریف اس طرح کی گئی ہے " صَرْفُ غَیْرِکَ عَمَّا یُرِیْدُ بِمَا لا یَدْرِیْہ " یعنی " دوسرے شخص کو اس کے ارادہ و پروگرام سے ایسے طریقے سے روکنا اور باز رکھنا کہ اس کو اس کا پتہ بھی نہ چلنے پائے "۔ اسی لئے مکر کے معنی تدبیر محکم بھی کئے گئے ہیں۔ پس فی نفسہ " مکر " میں کوئی برائی سرے سے ہے ہی نہیں بلکہ اس کی اچھائی برائی کا مدارو انحصار اس کے مقاصد پر ہے۔ اگر یہ اچھے مقصد کیلئے ہو تو یہ اچھا، برے کیلئے ہو تو برا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا { وَلا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَہْلِہٖ } الاٰیۃ (فاطر۔ 43) کہ " بری سازش و چال اپنے کرنے والے ہی کے گلے پڑے گی "۔ پس اگر یہ کید و مکر اچھی بات اور نیک مقصد کیلئے ہو تو یہ محمود و مطلوب ہے۔ جیسا کہ یہاں پر ہے کہ حضرت حَق ۔ جَلَّ مَجْدُہٗ ۔ نے یہود بےبہبود کے مکر و فریب کے جواب، اور اس کے رد میں ایسی تدبیر فرمائی کہ اپنے رسول برحق کی نہایت حکیمانہ اور معجزانہ طور پر حفاظت بھی ہوگئی، اور ان کی شان میں اضافہ بھی۔ اور دشمنوں کے مونہوں پر ناکامی و نامرادی کی وہ سیاہی بھی مل دی گئی جسکی بناء پر وہ ہمیشہ کیلئے ذلیل و خوار، اور مردود و مغضوب بھی ہوگئے۔ پس حضرت حق ۔ جل جلالہ ۔ کی طرف سے وجود میں آنے والا ہر " مکر " اور ہر تدبیر سراسر خیر ہی خیر اور حق و صواب ہے۔ لہٰذا ایسے موقع پر صرف صنعت مشاکلت کا سہارا لینے اور اس پر اکتفا کرنے کی بھی ضرورت نہیں، بلکہ لغت اور محاورے کی روشنی میں لفظ مکر و کید وغیرہ کا ایسا معنی و مفہوم مراد لیا جائے جو اس کی شان اقدس کے لائق ہو ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ بہر کیف اللہ تعالیٰ نے ان بدبختوں کی سازشوں کو اس طرح ناکام بنایا کہ وہ ہمیشہ کے لئے رسوا و ذلیل ہوگئے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور ان کے ساتھ ایسا معاملہ اور برتاؤ کیا کہ ان کو پتہ ہی نہ چل سکا کہ وہ اپنے کئے کرائے کے نتیجے اور اس کے جال میں اس بری طرح سے پھنس رہے ہیں اور یہی نتیجہ اور انجام ہوتا ہے حق اور اہل حق کی مخالفت اور دشمنی کا ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top