Bayan-ul-Quran - Al-A'raaf : 102
وَ مَا وَجَدْنَا لِاَكْثَرِهِمْ مِّنْ عَهْدٍ١ۚ وَ اِنْ وَّجَدْنَاۤ اَكْثَرَهُمْ لَفٰسِقِیْنَ
وَ : اور مَا وَجَدْنَا : ہم نے نہ پایا لِاَكْثَرِهِمْ : ان کے اکثر میں مِّنْ عَهْدٍ : عہد کا پاس وَاِنْ : اور درحقیقت وَّجَدْنَآ : ہم نے پائے اَكْثَرَهُمْ : ان میں اکثر لَفٰسِقِيْنَ : نافرمان۔ بدکردار
اور ہم نے ان میں سے اکثر میں عہد کی پاسداری نہیں پائی اور ہم نے تو ان کی اکثریت کو فاسق ہی پایا
آیت 102 وَمَا وَجَدْنَا لِاَکْثَرِہِمْ مِّنْ عَہْدٍ ج۔ دُنیا میں جب بھی کوئی قوم ابھری ‘ اپنے رسول کے سہارے ابھری۔ ہر قوم کے علمی و اخلاقی ورثے میں اپنے رسول کی تعلیمات اور وصیتیں بھی موجود رہی ہوں گی۔ ان کے رسول نے ان لوگوں سے کچھ عہد اور میثاق بھی لیے ہوں گے ‘ لیکن ان میں سے اکثر نے کبھی کسی عہد کی پاسداری نہیں کی۔ وَاِنْ وَّجَدْنَآ اَکْثَرَہُمْ لَفٰسِقِیْنَ اب انباء الرسل کے سلسلے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر آ رہا ہے۔ اس سے پہلے ایک رسول کا ذکر اوسطاً ایک رکوع میں آیا ہے لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر سات آٹھ رکوعوں پر مشتمل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سورتیں ہجرت سے متصلاً قبل نازل ہوئی تھیں اور ہجرت کے فوراً بعد قرآن کی یہ دعوت براہ راست اہل کتاب یہود مدینہ تک پہنچنے والی تھی۔ لہٰذا ضروری تھا کہ نبی اکرم ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ رض مدینہ پہنچنے سے پہلے یہود سے مکالمہ کرنے کے لیے ذہنی اور علمی طور پر پوری طرح تیار ہوجائیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے واقعات ان سورتوں میں بہت تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔
Top