Bayan-ul-Quran - Al-Ahzaab : 20
یَحْسَبُوْنَ الْاَحْزَابَ لَمْ یَذْهَبُوْا١ۚ وَ اِنْ یَّاْتِ الْاَحْزَابُ یَوَدُّوْا لَوْ اَنَّهُمْ بَادُوْنَ فِی الْاَعْرَابِ یَسْاَلُوْنَ عَنْ اَنْۢبَآئِكُمْ١ؕ وَ لَوْ كَانُوْا فِیْكُمْ مَّا قٰتَلُوْۤا اِلَّا قَلِیْلًا۠   ۧ
يَحْسَبُوْنَ : وہ گمان کرتے ہیں الْاَحْزَابَ : لشکر (جمع) لَمْ يَذْهَبُوْا ۚ : نہیں گئے ہیں وَاِنْ يَّاْتِ : اور اگر آئیں الْاَحْزَابُ : لشکر يَوَدُّوْا : وہ تمنا کریں لَوْ اَنَّهُمْ : کہ کاش وہ بَادُوْنَ : باہر نکلے ہوئے ہوتے فِي الْاَعْرَابِ : دیہات میں يَسْاَلُوْنَ : پوچھتے رہتے عَنْ : سے اَنْۢبَآئِكُمْ ۭ : تمہاری خبریں وَلَوْ : اور اگر كَانُوْا : ہوں فِيْكُمْ : تمہارے درمیان مَّا قٰتَلُوْٓا : جنگ نہ کریں اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : بہت کم
ان لوگوں کا یہ خیال ہے کہ (ابھی تک) لشکر گئے نہیں اور اگر (بالفرض) یہ (گئے ہوئے) لشکر (جو لوٹ کر) آ جا ویں تو پھر تو یہ یہی پسند کریں کہ کاش ہم دیہاتوں میں باہر جا رہیں کہ تمہاری خبریں پوچھتے رہیں اور اگر تم ہی میں رہیں تب بھی کچھ یوں ہی سا لڑیں۔ (ف 2)
2۔ آگے ثبات فی الحرب میں رسول اللہ ﷺ کے اقتدا و اتباع کا مقتضائے ایمان ہونا بیان فرماتے ہیں تاکہ منافقین کی تعییر ہو کہ باوجود دعوائے ایمان اس کے مقتضا کی تبشیر ہو کہ یہ لوگ البتہ مصداق کان یرجوا اللہ کے ہیں۔
Top