Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Ahzaab : 20
یَحْسَبُوْنَ الْاَحْزَابَ لَمْ یَذْهَبُوْا١ۚ وَ اِنْ یَّاْتِ الْاَحْزَابُ یَوَدُّوْا لَوْ اَنَّهُمْ بَادُوْنَ فِی الْاَعْرَابِ یَسْاَلُوْنَ عَنْ اَنْۢبَآئِكُمْ١ؕ وَ لَوْ كَانُوْا فِیْكُمْ مَّا قٰتَلُوْۤا اِلَّا قَلِیْلًا۠   ۧ
يَحْسَبُوْنَ : وہ گمان کرتے ہیں الْاَحْزَابَ : لشکر (جمع) لَمْ يَذْهَبُوْا ۚ : نہیں گئے ہیں وَاِنْ يَّاْتِ : اور اگر آئیں الْاَحْزَابُ : لشکر يَوَدُّوْا : وہ تمنا کریں لَوْ اَنَّهُمْ : کہ کاش وہ بَادُوْنَ : باہر نکلے ہوئے ہوتے فِي الْاَعْرَابِ : دیہات میں يَسْاَلُوْنَ : پوچھتے رہتے عَنْ : سے اَنْۢبَآئِكُمْ ۭ : تمہاری خبریں وَلَوْ : اور اگر كَانُوْا : ہوں فِيْكُمْ : تمہارے درمیان مَّا قٰتَلُوْٓا : جنگ نہ کریں اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : بہت کم
(خوف کے سبب سے) خیال کرتے ہیں کہ فوجیں نہیں گئیں اور اگر لشکر آجائیں تو تمنا کریں کہ (کاش) گنواروں میں رہیں (اور) تمہاری خبریں پوچھا کریں اور اگر تمہارے درمیان ہوں تو لڑائی نہ کریں مگر کم
اور خوف اور بزدلی کے ختم ہوجانے کے بعد عبداللہ بن ابی منافق اور اس کے ساتھیوں کا یہ خیال ہے کہ کفار مکہ کا لشکر ابھی تک گیا نہیں اور وہ نعوذ باللہ رسول اکرم کو شہید ہی کر کے جائے گا۔ اور اگر بالفرض کفار مکہ کے یہ لشکر پھر لوٹ آئیں تو یہی منافقین دشمن کے خوف و دہشت اور اپنی بزدلی سے یہ تمنا کرنے لگیں کہ کاش مدینہ سے کہیں باہر چلے جائیں اور مدینہ میں بیٹھے بیٹھے معرکہ خندق کے بارے میں پوچھتے رہیں۔ اور اگر تم لوگوں کے ساتھ معرکہ خندق پر جانا ہی پڑجائے تو محض نام کرنے کو تھوڑا سا لڑیں۔
Top