Dure-Mansoor - Al-Baqara : 21
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يَا اَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو اعْبُدُوْا : عبادت کرو رَبَّكُمُ : تم اپنے رب کی الَّذِیْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جو مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَتَّقُوْنَ : تم پرہیزگار ہوجاؤ
اے لوگو ! عبادت کرو اپنے رب کی جس نے تم کو پیدا فرمایا اور ان لوگوں کو بھی پیدا فرمایا جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔
(1) امام بزار، حاکم، ابن مردویہ اور بیہقی نے دلائل میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا “ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی اور ” یایھا الناس “ مکہ مکرمہ میں اتاری گئی۔ (2) ابن ابی شیبہ نے المصنف میں عبد بن حمید طبرانی نے الاوسط میں اور حاکم نے ابن مسعود سے روایت کیا ہے اور حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے کہ ہم نے مفصل (سورتیں) پڑھیں اور ہم مکہ مکرمہ میں حج کر رہے تھے۔ اس میں لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا “ نہیں تھا۔ (3) ابو عبید، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن الضریس، ابن المنذر اور ابو الشیخ نے اپنی تفسیر میں حضرت علقمہ سے روایت کیا ہے کہ ہر چیز قرآن میں (جہاں) لفظ آیت ” یایھا الذین “ ہے وہ مکی ہے اور ہر چیز قرآن میں (جہاں) لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا “ ہے وہ مدنی ہے۔ (4) امام ابن ضحاک سے اس کی مثل روایت کیا ہے۔ ابو عبید نے میمون بن مہران سے روایت کیا ہے کہ (جہاں) لفظ آیت ” یایھا الناس یابنی ادم “ ہے وہ مکی ہے اور (جہاں) ” یایھا الذین امنوا “ ہے وہ مدنی ہے۔ (5) امام ابن ابی شیبہ اور ابن مردویہ نے عروہ سے روایت کیا ہے کہ (جہاں) لفظ آیت ” یایھا الناس “ وہ مکی ہے اور (جہاں) لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا “ ہے وہ مدنی ہے۔ فرائض مدینہ منورہ فرض ہوئے (6) ابن ابی شیبہ اور ابن مرویہ نے عروہ سے روایت کیا ہے جہاں حج یا کسی فریضہ کے متعلق یہ کوئی ہے وہ مدینہ میں نازل ہوئی یا کسی حد یا جہاد کے بارے میں ہے وہ بھی مدینہ میں نازل ہوئی جہاں کہیں امتوں کا یا قرون کا یا مثالیں بیان ہوئیں وہ مکہ میں نازل ہوئیں۔ (7) امام ابن ابی شیبہ نے حضرت عکرمہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ ہر سورة جس میں لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا “ ہے وہ مدنی ہے۔ (8) امام ابن اسحاق، ابن جریر، اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے لفظ آیت ” یایھا الناس “ سے دونوں فریق کفار اور مؤمنین مراد ہیں۔ ” اعبدوا “ سے مراد ہے وحدوا یعنی اس ذات کی توحید بیان کرو۔ (9) امام ابن ابی حاتم نے سدی سے اس آیت ” الذی خلقکم والذین من قبلکم “ کے بارے میں نقل فرمایا کہ اس سے مراد ہے کہ تم کو پیدا کیا اور ان لوگوں کو پیدا کیا جو تم سے پہلے تھے۔ (10) ابن ابی حاتم نے ابو مالک سے روایت کیا کہ ” لعکم “ میں (لام) کے معنی میں ہے سورة شعراء کی آیت ” لعلکم تخلدون “ کے علاوہ، اور اس کا معنی ہے ” کانکم تخلدون “ گویا کہ تم ہمیشہ رہو گے۔ (11) امام ابن حاتم اور ابو الشیخ نے عون بن عبد اللہ بن غنیۃ سے روایت کیا ہے کہ ” لعل “ سے مراد ہے من اللہ واجب یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے واجب ہے۔ (12) وکیع، عبد بن حمید، ابن جریر اور ابو الشیخ نے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” لعلکم تتقون “ سے مراد ہے ” تطیعون “ یعنی تم اطاعت کرو۔ (13) امام ابن ابی حاتم نے ضحاک سے روایت کیا ہے لفظ آیت ” لعلکم تتقون “ سے مراد ہے ” تتقون النار “ یعنی تم آگ سے بچو۔
Top