Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 53
رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا بِمَاۤ اَنْزَلْتَ وَ اتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ
رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِمَآ : جو اَنْزَلْتَ : تونے نازل کیا وَاتَّبَعْنَا : اور ہم نے پیروی کی الرَّسُوْلَ : رسول فَاكْتُبْنَا : سو تو ہمیں لکھ لے مَعَ : ساتھ الشّٰهِدِيْنَ : گواہی دینے والے
مالک جو فرمان تو نے نازل کیا ہے ‘ ہم نے اسے مان لیا ہے اور رسول کی پیروی قبول کی ‘ ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ دے ۔ “
یہ جو انہوں نے براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ فرمائی ‘ اور اللہ کے ساتھ بھی یہ وعدہ کیا ‘ اس میں ایک اہم نکتہ پوشیدہ ہے ۔ مومن کا ابتدائی عہد صرف اللہ کے ساتھ ہوتا ہے ۔ جب ایک رسول کسی پیغام کو اہل ایمان تک پہنچا دیتا ہے تو پھر اس کی ڈیوٹی ختم ہوجاتی ہے اور اب مومن کی بیعت اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہوجاتی ہے ۔ اور جب رسول اس دنیا سے چلاجائے تب بھی یہ فریضہ اور یہ ذمہ داری مومن کے گلے میں پڑی رہتی ہے ۔ اور اس بیعت میں ‘ معاہدہ ذمہ داری میں یہ بات ہوتی ہے کہ وہ رسول کی اطاعت کرتے رہیں گے ۔ اس لئے ایمان صرف عقیدے کا نام نہیں ہے جو انسان کے ضمیر میں ہوتا ہے بلکہ اتباع کا نام ہے اور رسول کے نظام کی اطاعت بھی ضروری ہے اور یہی وہ مفہوم ہے جس کے ارد گرد اس پوری سورت کے مضامین گھوم رہے ہیں ۔ اس سورت میں اس مضمون کو مختلف طریقوں سے مکرر بیان کیا گیا ہے۔ یہاں حواریوں کے کلام میں ایک اہم جملہ ہے فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ……………” آپ ہمارے نام گواہی دینے والوں میں لکھ دیں۔ “ سوال یہ ہے کہ وہ کیا شہادت دیتے ہیں اور کس بات کے وہ گواہ ہیں ؟ درحقیقت ایک شخص جو ایمان لاکر مسلم بن جاتا ہے اور اللہ کے دین کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے تو اس کے بعد اس کا فرض ہے کہ وہ اس دین کے بارے میں شہادت دے ۔ وہ گواہی دے کہ اس دین کا یہ حق ہے کہ یہ قائم ودوائم رہے ۔ وہ ایسی شہادت دے کہ اس دین میں انسانوں کی جو بھلائی ہے وہ اس کی شہادت ہے ۔ اور یہ مومن اس وقت تک شہادت نہیں دے سکتا جب تک وہ اپنے نفس اپنے اخلاق اور اپنی پوری زندگی کو اس دین کی جیتی جاگتی تصویر نہ بنالے ۔ وہ ایسی تصویر بنائے کہ لوگ اسے دیکھتے ہی ایک مثال سمجھیں اور اس بات کی شہادت دیں کہ واقعی اگر دین کی یہ صورت ہے تو یہ دین اس بات کا مستحق ہے ۔ کہ وہ زندہ رہے۔ اور یہ کہ یہ دین اس پوری کائنات میں تمام نظاموں اور طریقوں اور سوسائٹیوں کے مقابلے میں افضل اور بہتر ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی شخص یہ شہادت اس وقت تک نہیں دے سکتا جب تک وہ اس دین کو اپنے لئے ضابطہ ٔ حیات نہ بنالے ۔ جب تک وہ اسے اجتماعی نظام نہ بنالے ۔ اور جب تک وہ اسے اپنے اور اپنی قوم کے لئے نظام قانون نہ بنالے ۔ اور جب تک اس کے گرد ایسا معاشرہ قائم نہ ہوجائے جو اس نظام حیات کے مطابق اپنی زندگی کے معاملات کو چلاتا ہو ۔ جو ایک خدائی نظام اور مضبوط نظام ہے ۔ نیز یہ شہادت اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک وہ مومن اس نظام حیات کے قائم کرنے کے لئے جہاد شروع نہیں کرتا ۔ اور جب تک وہ اس جہاد میں زندگی پر موت کو ترجیح نہیں دیتا یعنی اس معاشرے کے خلاف جس میں انسانی زندگیوں پر اسلامی نظام رائج نہ ہو اور یہ اس بات کی شہادت ہوگی کہ اقامت دین کا فریضہ خود اس کی زندگی سے بھی عزیز تر ہے ۔ حالانکہ زندگی کی وہ تمام چیزوں کے لئے ایک عزیز متاع ہوتی ہے ۔ اس لئے اس کو شہید کہا جاتا ہے ۔ اس لئے کہ وہ شہادت دیتا ہے ۔ یہاں ان حواریوں نے دعا کی کہ اللہ ہمیں ایسے گواہوں میں لکھ دے ‘ ہم دین کے لئے شہادت دیں گے ۔ یعنی وہ یہ دعا کرتے ہیں کہ ہمیں ایسی توفیق دے کہ ہماری زندگی دین مسیحی کا زندہ نمونہ بن جائے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم ایک ایسے معاشرے کو وجود میں لانے کے لئے جہاد کریں جس میں یہ دین قائم ہو ۔ اگر انہوں نے اس کا حق ادا کردیا تو گویا انہوں نے اس دین کے حق کی شہادت دیدی کہ یہ دین سچا دین ہے ۔ میں یہاں یہ بات کہوں گا کہ آج جو شخص بھی اپنے لئے ایمان اور اسلام کا دعویدار ہے وہ ذرا اس دعا پر غور کرے ۔ یہ ہے اصلی اسلام ‘ جس طرح حواریوں نے اسے سمجھا ۔ جس طرح حقیقی مسلمانوں کے دل میں بھی یہ حقیقت اچھی طرح بیٹھی ہوئی ہے ۔ اور جو شخص دین کے لئے شہادت نہ دے گا اور اسے چھپا کر رکھے گا تو اس کا دل گناہ گار ہے ۔ یاد رہے کہ جو شخص اسلام کا دعویٰ کرتا ہے اور اپنی عملی زندگی میں اسلام کے خلاف روش اختیار کرتا ہے ‘ جو شخص اسلام پر یقین رکھتا ہے لیکن اسلامی فرائض علی الاعلان ادا نہیں کرتا ‘ اور اسلامی نظام حیات کو عملاً قائم کرنے کے لئے جدوجہد نہیں کرتا ۔ وہ یہ کام یا اپنی پرامن زندگی کے لئے کرتا ہے یا اپنی زندگی کو دین اسلام کی زندگی پر فوقیت دیتا ہے تو اس نے یقیناً شہادت حق دینے میں سخت کوتاہی کی یا اس نے اسلام کے خلاف دوسرے نظاموں کے حق میں شہادت دی ۔ یہ ایسی شہادت ہے جو دوسروں کو بھی اسلام کی طرف آنے سے روکتی ہے اس لئے کہ وہ دیکھتے ہیں کہ اہل اسلام اسلام کے حق میں نہیں بلکہ اسلام کے خلاف شہادت دے رہے ہیں ۔ اور اس شخص کا انجام عظیم بربادی ہے جو اپنے اس دعوے کی بناپر کہ وہ مسلم ہے تمام لوگوں کو اسلام سے روکتا ہے ۔ حالانکہ وہ دین کا مومن نہیں ہوتا بلکہ دین سے روکنے والا ہوتا ہے (اس موضوع پر استاد مودودی نے اپنی کتاب شہادت حق میں جو قیمتی بحث کی ہے اسے ضرور ملاحظہ فرمائیں۔ سید قطب) ۔ اب بنی اسرائیل کے ساتھ قصہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا آخری حصہ آتا ہے۔
Top