Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 53
رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا بِمَاۤ اَنْزَلْتَ وَ اتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ
رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِمَآ : جو اَنْزَلْتَ : تونے نازل کیا وَاتَّبَعْنَا : اور ہم نے پیروی کی الرَّسُوْلَ : رسول فَاكْتُبْنَا : سو تو ہمیں لکھ لے مَعَ : ساتھ الشّٰهِدِيْنَ : گواہی دینے والے
اے ہمارے پروردگار ہم ایمان لائے اس چیز پر جو تو نے اتاری اور ہم نے رسول کی پیروی کی سو تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ۔
فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِيْنَ ، یہ اس بات کی دعا ہے کہ قیامت کے روز ان کا شمار حق کی شہادت دینے والوں میں لکھا ہو، حق کو چھپانے والوں میں نہ لکھا جائے۔ یہی شہادتِ حق وہ اصل ذمہ داری ہے جو ہر نبی کی امت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈالی جاتی ہے۔ نبی، جان کی بازی لگا کر امت پر اللہ کے دین کی گواہی دیتا ہے اور نبی کے بعد یہ امت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اس حق کی گواہی، ہر طمع اور ہر خوف سے بےپروا ہو کر، خلق پر دے، یہ گواہی دل، زبان، قول، عمل اور جان و مال کی قربانی، ہر پہلو سے دینے کا مطالبہ ہے۔ اس شہادت کا ضد کتمانِ حق ہے جو شریعتِ الٰہی کے شدید ترین جرائم میں سے ہے۔ مذاہب کی تاریخ سے ثابت ہے کہ یہود اس جرم کے سب سے بڑے مجرم ہوئے ہیں اور یہ جرم من جملہ ان جرائم کے ہے جن کے سبب سے وہ اللہ تعالیٰ کی لعنت کے مستحق قرار پائے۔ حواریین کی اس دعا کے باطن پر غور کیجیے تو محسوس ہوگا کہ اس میں یہود کی اس حق پوشی پر بالواسطہ تعریض بھی ہے۔ اس آیت کا مضمون تھوڑے سے تغیر الفاظ کے ساتھ سورة وصف میں بھی بیان ہوا ہے ”يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ فَآمَنَتْ طَائِفَةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَتْ طَائِفَةٌ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَى عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ : اے ایمان والو، اللہ کے مددگار بن جاؤ، جیسا کہ عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے کہا کہ کون اللہ کی راہ میں میرا مددگار بنتا ہے ؟ حواریوں نے جواب دیا کہ ہم ہیں اللہ کے مددگار، تو بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا، اور ایک گروہ نے کفر کیا، پس ہم نے ایمان لانے والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابل میں مدد کی تو وہ ان پر غالب ہوگئے“ (صف :14)۔ یہاں یہ بات ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اللہ مدد سے مراد اللہ کے رسول اور اللہ کے اس دین کی تائید و حمایت ہے جس کو قائم کرنے کی دعوت لے کر اللہ کا رسول اٹھتا ہے۔ من انصاری الی اللہ، کے الفاظ سے خود اس حقیقت کا اظہار ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی امداد سے بےنیاز ہونے کے باوجود اس کو اپنی امداد سے جو تعبیر فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کام اللہ کو پسند ہے اور اس میں اس کے بندوں کی فلاح و بہبود ہے۔
Top