Tafseer-e-Haqqani - An-Nahl : 4
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ
خَلَقَ : پیدا کیا اس نے الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ : سے نُّطْفَةٍ : نطفہ فَاِذَا : پھر ناگہاں هُوَ : وہ خَصِيْمٌ : جھگڑا لو مُّبِيْنٌ : کھلا
آدمی کو اسی نے پانی کی بوند سے پیدا کیا پھر وہ یکایک کھلم کھلا جھگڑنے لگا
دوسری قسم : خلق الانسان من نطفۃ فاذا ھو خصیم مبین۔ آسمان اور زمین کے بعد دیگر اجسام سے اشرف انسان ہے۔ انسان دو چیزوں سے مرکب ہے۔ اول بدن، دوم نفس۔ اب اس کے دونوں جزوں سے استدلال کرتا ہے۔ اول سے یوں کہ انسان کے بدن کی بنیاد نطفہ یعنی منی کے چند قطرے ہیں جو عورت کے رحم میں جانے کے بعد خون بن جاتے ہیں، پھر گوشت کا لوتھڑا، پھر اعضاء نمودار ہوتے ہیں اور باوجودیکہ ایک مادہ ہے اور ایک جگہ میں ہے پھر اس میں سے کسی کے ہاتھ پائوں، ہڈی بنتی ہے، کسی کے سر، قلب وغیرہ، اعضاء۔ پھر وہ اعضا بےڈول نہیں بلکہ ہر ایک مناسب۔ بالوں کی جگہ بال، آنکھ کی جگہ آنکھ۔ اب دیکھو یہ کس کا کام ہے۔ ماں باپ کو تو یہ بھی خبر نہیں کہ اندر کیا ہے اور کیا ہو رہا ہے ؟ اگر کہو طبیعت یا مادہ کا فعل ہے جیسا کہ بعض کہتے ہیں تو پوچھنا چاہیے کہ اول تو افعال طبیعہ یکساں ہوتے ہیں۔ اس کا مقتضٰی یہ تھا کہ انسان کی شکل کروی ہوتی۔ آدمی ایک گول مول گتا سا ہوتا، جیسا کہ حکماء آسمان اور زمین کی شکل کی نسبت کہتے ہیں اور مان لو کہ طبیعت کا فعل ہے تو پھر پوچھو کہ یہ طبیعت کس نے پیدا کی، اس کل کو کس نے چلایا، آخر وہی حکیم وعلیم آ کر ٹھہرے گا۔ دوسرے جزو سے استدلال یوں ہے کہ پیدا ہونے کے بعد حضرت انسان مرغی کے بچے کے برابر بھی ہوشیاری نہیں رکھتے، وہ تو انڈے سے نکلتے ہی دوست دشمن کو پہچاننے لگتا ہے، بلی، چیل سے بھاگتا، ماں کے پیچھے ہو لیتا ہے۔ برخلاف انسان کے کہ انہیں کچھ بھی خبر نہیں ہوتی۔ پھر وہ کون ہے کہ جس نے اس کو چالاک اور صاحب ادراک کردیا کہ صاحب ادراک ہوتے ہی آسمانوں اور زمین کے قلابے ملانے لگے، دنیا میں ہزاروں صنعتیں اور بہت سی کلیں تو اس نے ایجاد کی ہی تھیں، بارے اب پیغمبروں سے بھی مقابلہ کرنے لگے، قیامت اور خدا کے منکر بن گئے۔ فاذا ھو خصیم مبین میں اسی طرف اشارہ ہے۔
Top