Tadabbur-e-Quran - An-Nahl : 4
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ
خَلَقَ : پیدا کیا اس نے الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ : سے نُّطْفَةٍ : نطفہ فَاِذَا : پھر ناگہاں هُوَ : وہ خَصِيْمٌ : جھگڑا لو مُّبِيْنٌ : کھلا
اس نے انسان کو پانی کی ایک بوند سے پیدا کیا تو وہ ایک کھلا ہوا حریف بن کر اٹھ کھڑا ہوا
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِيْمٌ مُّبِيْنٌ۔ انسان سے یہاں مراد وہی کفار و مشرکین ہیں جو اوپر کی آیات میں مخاطب ہیں۔ ان سے بیزاری کے لیے بات عام صیغہ سے کہہ دی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ پیدا تو ہم نے انسان کو نجس پانی کی ایک بوند سے کیا لیکن اب وہ کھلم کھلا ہمارا ایک حریف بن کر اٹھ کھڑا ہوا ہے اب وہ اپنے دوبارہ اٹھائے جانے کو بھی بعد از امکان سمجھتا ہے اور کہتا ہے ءاذا متنا وکنا ترابا ذلک رجع بعید (کیا جب ہم مر جائیں گے اور گل سڑ کر مٹی ہوجائیں گے تو ہم از سر نو اٹھائے جائیں گے، یہ واپسی تو بہت ہی مستبعد ہے)۔ اور جن کو اپنے زعم کے مطابق اس نے ہمارا شریک بنا رکھا ہے ان کی حمایت میں بھی ہم سے لڑتا ہے۔ آگے آیت 27 میں ان کے اسی لڑنے کا حوالہ ہے۔ ویقول این شرکاءی الذین کنتم تشاقون فیہم (اور وہ فرمائے گا کہ اب میرے وہ شریک کہاں ہیں جن کی حمایت میں تم لڑتے تھے)۔
Top