Tafseer-e-Madani - An-Naml : 63
بَلْ قُلُوْبُهُمْ فِیْ غَمْرَةٍ مِّنْ هٰذَا وَ لَهُمْ اَعْمَالٌ مِّنْ دُوْنِ ذٰلِكَ هُمْ لَهَا عٰمِلُوْنَ
بَلْ : بلکہ قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل فِيْ غَمْرَةٍ : غفلت میں مِّنْ ھٰذَا : اس سے وَلَهُمْ : اور ان کے اَعْمَالٌ : اعمال (جمع) مِّنْ دُوْنِ : علاوہ ذٰلِكَ : اس هُمْ لَهَا : وہ انہیں عٰمِلُوْنَ : کرتے رہتے ہیں
مگر یہ لوگ ہیں کہ ان کے دل اس سے غفلت اور مدہوشی میں پڑے ہیں اور اس فساد عقیدہ کے علاوہ ان کے کچھ اور اعمال بھی ایسے ہیں جن کو یہ لوگ کرتے رہتے ہیں
80 منکروں کے دل غفلت میں ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان کے دل اس سے غفلت میں پڑے ہیں۔ اور ان کو خیال و احساس تک نہیں کہ جو کچھ یہ کہہ اور کر رہے ہیں وہ کہیں درج ہو رہا ہے۔ اور یہ پورا ریکارڈ کل قیامت کے روز ان کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ پس یہ مشرک اور محروم لوگوں کا حال اور ان کا وصف ہے نہ کہ ان سچے اہل ایمان کا جن کی صفات اوپر بیان ہوئیں۔ جیسا کہ بعض حضرات نے ایسے کہا کہ یہ قرآن پاک کے دوسرے نظائر کے خلاف اور ذوق سلیم کے بھی منافی ہے۔ (تفسیر القاسمی (رح) وغیرہ) ۔ بہرکیف ارشاد ربانی سے واضح فرما دیا گیا کہ ان منکر اور متکبر لوگوں کا اصل مرض غفلت اور لاپرواہی ہے۔ سو یہ غافل ہیں اپنی آخرت اور اپنے انجام سے۔ اور اسی بناء پر یہ لوگ پیغمبر کے انذار اور ان کی تبلیغ پر کان نہیں دھرتے۔ اور ان امور کی طرف توجہ نہیں کرتے جو ان کو آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں کام آئیں گے۔ بلکہ ان کی دلچسپی کے کام کچھ اور ہی ہیں جن میں یہ دن رات محو اور منہمک رہے ہیں۔ جن کا تعلق ان کی خواہشات کی تکمیل، دنیاوی مفادات کی تحصیل اور مادی فوائد و منافع سے ہوتا ہے اور بس۔ اور یہی حال ابنائے دنیا کا کل تھا اور یہی آج ہے کہ دنیا اور اس کی وقتی لذات ہی ان کیلئے سب کچھ ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو یہ لوگ اپنی رفاہیت اور خوشحالی کو اپنی صداقت اور نیک مآلی کی دلیل سمجھے بیٹھے ہیں۔ سو یہاں پر اس اضراب کا تعلق ان متکبرین کے اسی مغالطے سے ہے۔ اوپر ان کی اس مغالطے کے ذکر کے بعد کلام کا رخ اہل ایمان کی طرف مڑ گیا تھا۔ اب پھر اسی سلسلہ کلام کی طرف عود فرمایا جا رہا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان لوگوں کے دل غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں اور یہ اپنی خرمستیوں میں اس طرح کھوئے ہوئے ہیں کہ ان کے لیے اہل ایمان کی ان عمدہ صفات اور اعمال خیر میں کوئی کشش نہیں جن کا ذکر اوپر آیات نمبر 57 تا 60 میں فرمایا گیا ہے۔ سو یہ ایسے ہی غافل اور خواہشات بطن و فرج کے تقاضوں کے تحصیل و تکمیل میں محو و منہمک رہیں گے یہاں تک کہ ان کو خداوند قدوس کا وہ عذاب آدبوچے گا جس کا مستحق انہوں نے اپنے آپ کو اپنے اعراض و انکار اور عجب و غرور کی بنا پر بنادیا۔ اور اس طور پر کہ پھر ان کے لیے اس سے بچ نکلنے کی کوئی صورت ممکن نہیں ہوگی۔ اور یہی ہے سب سے بڑا اور انتہائی ہولناک خسارہ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔
Top