Tafseer-e-Haqqani - Al-Maaida : 56
وَ مَنْ یَّتَوَلَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْغٰلِبُوْنَ۠   ۧ
وَمَنْ : اور جو يَّتَوَلَّ : دوست رکھتے ہیں اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَ : اور الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) فَاِنَّ : تو بیشک حِزْبَ اللّٰهِ : اللہ کی جماعت هُمُ : وہ الْغٰلِبُوْنَ : غالب (جمع)
اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول اور ایمانداروں کا دوست بن کر رہے گا تو اللہ کا لشکر ہی غالب رہے گا۔
ترکیب : ومن مبتداء متضمن شرط اللّٰہ اور رسولہ اور والذین آمنوا یتول کا مفعول ‘ فان حزب اللّٰہ خبر لا تتخذوا نہی انتم ضمیر اس کی فاعل الذین موصول اتخذوا فعل دینکم مفعول اول ہزوا ولعبا مفعول ثانی۔ من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم الذین کا بیان یہ تمام صلہ والکفار اس پر معطوف یہ سب مفعول اول یا ایہا الذین آمنوا لا تتخذوا کا اولیاء مفعول ثانی۔ تفسیر : اسی طرح حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت بھی برحق ثابت ہوتی ہے۔ اگر شیعہ یہ کہیں ( کہ اس گروہ کا سردار اور اس وعدہ کی تکمیل کے مہتمم حضرت علی ؓ تھے اور لوگوں کا حضرت علی ؓ کو خلیفہ نہ کرنا اور ان کا حق تلف کرکے ابوبکر ؓ کو خلیفہ بنانا اور فاطمہ ؓ کا حق باغ فدک نہ دینا ارتداد ہے۔ اس وجہ سے جنہوں نے ابوبکر ؓ کو خلیفہ بنایا وہ سب مرتد ہوگئے) تو ہم پوچھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت تمام انصار و مہاجرین کے مشورہ سے ہوئی تھی۔ اگر یہ سب اس وجہ سے مرتد ہوگئے تو پھر ان مرتدوں کو حضرت علی ؓ نے کب پست کیا اور خدا نے کب اپنے وعدہ کو سچا کیا اور وہ کون سی قوم معین اسلام پیدا ہوئی تھی بلکہ برخلاف اس کے حضرت علی ؓ ہمیشہ ابوبکر و عمر ؓ کی خلافت میں شریک رائے رہے اور ان عرب کی مرتد قوموں پر چڑھائی کرنے میں ان کے دل سے شریک رہے اور کسرٰی و قیصر کی سلطنتیں برباد کرکے اسلام کے قبضہ میں کرنا اور اسلام کی بےنہایت ترقی کا پایا جانا سب ابوبکر و عمر ؓ کی خلافت حضرت علی ؓ کی وزارت میں متحقق ہوا۔ رہا یہ احتمال کہ حضرت علی ؓ دل سے شریک نہ تھے اول تو لایخافون لومتہ لائم کے خلاف ہے۔ دوم پھر اس ارتداد کے مقابلہ میں بجائے مقابلہ کے مدد کرنا معاذ اللہ خدا کے وعدہ کو جھوٹا کردینا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ وہی ارتداد مراد ہے جو دراصل اسلام سے پھرنا تھا اور جس کو سب ارتداد کہہ سکتے ہیں نہ کہ علی ؓ کو اول مقدم خلیفہ نہ بنایا کیونکہ اس کو خود حضرت علی ؓ نے ہی ارتداد نہیں قرار دیا بلکہ وہ ان لوگوں کو مسلمان سمجھتے رہے۔ مناکحت امامت صلوٰۃ نماز جنازہ تمام باتوں میں ان سے متفق رہے۔ اس کے بعد کافروں کی ولایت سے منع کرکے اللہ اور اس کے رسول کی ولایت اور حمایت میں رہنے کی ترغیب دلاتا ہے اور اللہ کی جماعت کے لئے انجام کار غلبہ کا وعدہ دیتا ہے۔ بقولہ انما ولیکم اللّٰہ ورسولہ والذین آمنوا پھر مومنین کے یہ چند اوصاف ذکر کرتا ہے یقیمون الصلوٰۃ کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں۔ یہ بدنی اور روحانی عبادت کا اصل اصول ہے ویؤتون الزکوٰۃ کہ وہ زکوٰۃ دیتے ہیں۔ یہ مالی عبادت کا رکن اعظم ہے وھم راکعون۔ ابو مسلم کہتے ہیں کہ رکوع سے مراد خضوع ہے کہ وہ یہ باتیں نہایت خشوع و خضوع سے کرتے ہیں۔ بعض نے اس کو یؤتون الزکوۃ سے حال بنا کر حالت نماز میں اللہ کے لئے انگوٹھی دینا حضرت علی کی نسبت روایت کیا ہے۔ ومن یتول یہ اللہ اور اس کے رسول اور ایمانداروں کے ساتھ دوستی کرنے والوں کے حق میں بشارت دیتا ہے کہ فان حزب اللّٰہ ھم الغالبون کہ انجام کار خدا کا گروہ غالب رہے گا۔ سو ایسا ہی ہوا۔ پھر اس کے بعدمنافقوں کے ساتھ محبت کرنے سے ان کے چند اوصاف ذمیمہ بیان کرکے ممانعت کرتا ہے کہ انہوں نے دین کو کھیل کود سمجھ رکھا ہے اور جب کہ اذان کہی جاتی ہے تو اس پر ٹھٹھا کرتے ہیں۔ چناچہ مدینہ کے منافق اور یہود اذان سن کر واہی تباہی باتیں بنایا کرتے تھے۔ فرماتا ہے کہ یہ اس لئے کہ یہ احمق ہیں ورنہ نماز و اذان میں عقلاً کوئی برائی نہیں۔
Top