Tafseer-e-Saadi - Al-Maaida : 56
وَ مَنْ یَّتَوَلَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْغٰلِبُوْنَ۠   ۧ
وَمَنْ : اور جو يَّتَوَلَّ : دوست رکھتے ہیں اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَ : اور الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) فَاِنَّ : تو بیشک حِزْبَ اللّٰهِ : اللہ کی جماعت هُمُ : وہ الْغٰلِبُوْنَ : غالب (جمع)
اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر اور مومنوں سے دوستی کرے گا تو (وہ خدا کی جماعت میں داخل ہوگا اور) خدا کی جماعت ہی غلبہ پانیوالی ہے۔
(آیت 56) اللہ تبار کو تعالیٰ نے جب یہود و نصاریٰ وغیرہ کفار کی دوستی سے روکا اور ذکر فرمایا کہ ان کی دوستی کا انجام واضح خسارہ ہے۔ جس کی دوستی متعین اور واجب ہے، اب اس کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے اس کے فائدے اور مصلحت کا ذکر کیا ہے (انما ولیکم اللہ و رسولہ) ” تمہارا دوست تو صرف اللہ اور اس کا رسول ہی ہے “ اللہ تعالیٰ کی ولایت (دوستی) ایمان اور تقویٰ کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے جو کوئی صاحب ایمان اور متقی ہے وہ اللہ کا ولی، یعنی دوست ہے اور جو اللہ کا دوست ہے وہ اس کے رسول ﷺ کا دوست ہے۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کو دوست بناتا ہے تو اس دوستی کی تکمیل یہ ہے کہ اللہ جن کو دوست بناتا ہے یہ بھی انہی کو دوست بنائے اور وہ ہیں اہل ایمان جو ایمان کے ظاہری اور باطنی تقاضوں کو پورا کرتے ہیں اور معبود کے لئے دین کو خالص کرتے ہیں، یعنی نماز کو اس کی تمام شرائط و فرائض اور اس کو مکمل کرنے والے امور کے ساتھ قائم کرتے ہیں، مخلوق کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آتے ہیں اور اپنے اموال میں سے اپنے میں سے مستحق لوگوں کو زکوۃ دیتے ہیں۔ (وھم رکعون) ” اور ( اللہ کے آگے) جھکتے ہیں۔ “ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے خضوع اور تذلل اختیار کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد (انما ولیکم اللہ و رسولہ والذین امنوا) میں حصر کا اسلوب دلالت کرتا ہے کہ ان مذکورہ کی دوستی پر اقتصار کرنا اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں سے برأت کا اظہار کرنا ضروری ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس دوستی کا فائدہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : (ومن یتول اللہ و رسولہ والذین امنوا فان حزب اللہ ھم الغبون) ” اور جو اللہ سے، اس سے اور ایمان والوں سے دوستی رکھتا ہے، تو بیشک اللہ کا گروہ ہی غالب آنے والا ہے “ یعنی وہ اس گروہ میں شمار ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے عبودیت اور ولایت کی اضافت رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا حزب غالب ان لوگوں پر مشتمل ہے جن کا انجام دنیا و آخرت میں اچھا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (وان جندنالھم الغبون) (الصافات :183/38) ” بیشک ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا۔ “ یہ اس شخص کے لئے بہت بڑی بشارت ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کر کے اس کے گروہ اور لشکر میں شامل ہوجاتا ہے کہ غلبہ اسی کے لئے ہے۔ اگرچہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تحت وہ مغلوب بھی ہوجاتا ہے مگر انجام کار فتح و غلبہ سے وہی بہرہ ور ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر سچی بات کہنے والا کون ہے۔
Top