Tafseer-e-Haqqani - Al-Haaqqa : 13
فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَةٌ وَّاحِدَةٌۙ
فَاِذَا نُفِخَ : پھر جب پھونک دیا جائے گا فِي الصُّوْرِ : صور میں نَفْخَةٌ : پھونکنا وَّاحِدَةٌ : ایک ہی بار
پھر جب صور میں ایک ہی پھونک ماری جائے گی
ترکیب : نفتحہ واحدۃ بالرفع علی انھا مفعول مالم یسم فاعلہ من نفخ المجھول وانما حسن تذکیرا لفعل للفصل اوان التانیث غیرحقیقی و قریٔ بالنصب ان فی الصور مفعول مالم یسم فاعلہ ثم نصب نفتحہ علی انھا مفعول مطلق واحدۃ تاکید لھا۔ وحملت الارض الخ بالتخفیف و قریٔ 1 ؎ والقطوف قطف وھوالمقطوع ای الثمر ما اسلفتم ای قدتم من اعمالکم الصالحۃ الاسلاف تقدیم ما ترجوا ان یعود علیک بخیر فھو کالا قراض و منہ یقال اسلف فی کذا اذا قدم فیہ مالہ ذرعھا الخ صفۃ لسلسلۃ غسلین فعلین من الغسل ھو وماء یسیل من الجروح بعد الغسل من صدید قیح دوم 12 منہ 2 ؎ یالیتھا الضمیر یعودالی الموتۃ الاولی فانھا کالمذکورا والی الحالۃ التی شاھدھا یالیت ہذہ الحالۃ کانت الموتتۃ التی قضیت علی۔ 12 منہ مشددواعطف علی نفخ فدکتا ای جملۃ الارض وجملۃ الجبال من الدک (کو فتن وریزہ کردن و ہموار کردن صراح) والدک ابلغ من الدق۔ ناقۃ وکاء لاسنام لھا ومنہ الدکتہ بالفتح (چبوترہ) والد کان بالضم دکۃ واحدۃ قال الفراء لایجوزھنا الا النصب لارتفاع الضمیر فی دکتا ولم یقل فدککن لانہ جعل الجبال کالواحدۃ والارض کالواحدۃ کماقال ان السمٰوات والارض کانتار تقاولم یقل کن۔ فیومیذٍ ظرف لوقعت وانشقت معطوف علیٰ وقعت یومئذ ظرف لواہیۃ فیومئذ ومابعدھا جواب اذانفخ قال الزجاج یقال لکل ماضعف جداً وھی فھو واہ ارجاء ھا ای اطرافھاد جو انبھا جمع رجی مقصود یقال رج اور جوان والجمع الارجاء ثمانیۃ بالرفع علی انہ فاعل یحمل فوقہم ای فوق الملائکہ الذین علی الارجاء وقیل ان الجملۃ یحملون العرش فوق رؤسھم والضمیر قبل الذکر جائز کقولہ۔ فی بیتہ یؤتی الحکم۔ فوقھم و یومئذ منصوبان بیحمل علی انھما ظرفان لہ ھائم من اسماء الفعل۔ ھابمعنی خذیقال ہاء یافتی و معناہ تناول ویفتحون الھمزۃ للذکر کالکاف فی ہاک ویقال للاشنین ھاء ما واللجمع ھاء واوھارم والمیم فی ھذہ الموضع کالمیم فی انتما وانتم والضمتہ فی ھاء م انماھی ضمۃ میم الجمع ویقال للانثی ھاء یا امرۃ وھاء مایا امرء تان وھائون یانسوۃ مقعول ھاء م محذوف وکتابیہ مفعول اقراء والانہ اقرب العاملین ولانہ لوکان مفعول ہاء م لقیل اقراء وہ اذا الاولیٰ اضمارہ حیث امکن والھاء فی کتابیہ وحسابیہ ومالیہھی ھاء السکت و حق ھذہ الھا آت ان تثبت فی الوقف وتسقط فی الوصل ولما کانت مثبتہ فی الام ای مصحف عثمان ؓ استحبوا الوقف علیھا وقرء ابن حصین باسکان الیاء بغیرہاء وقرء جماعۃ باثبات الھاء فی الوصل والوقف جمیعا الاتباع المصحف۔ تفسیر : دنیاوی حاقہ کے نظائر بیان فرما کر ایک سخت حاقہ کا ذکر کرتا ہے یعنی قیامت کے برپا ہونے کا۔ پھر اس کی تمام کیفیت ہولناک بیان فرماتا ہے کہ صور پھونکا جائے گا۔ ایک ہی بار کے پھونکنے میں اول زمین اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے پھر اس کے بعد علویات فنا ہوں گے، آسمان پھٹ جائیں گے اور فرشتے جو آسمانوں میں سے تھے نکل کر اس کے کناروں پر آجائیں گے۔ اس طرح کہ جب کوئی مکان گرتا ہو تو اس کے رہنے والے چھوڑ کر اس کے گرد ہوجاتے ہیں اس کے بعد جبکہ تمام چیزیں فنا ہوجائیں گی الاماشاء اللہ تو باردیگر صور پھنکے گا جس کی کیفیت سورة زمر میں بیان ہوئی تو تمام چیزیں باردگر پیدا ہوں گی، مردے زندہ ہوں گے، عدالت کے لیے تخت رب العالمین لا کر رکھا جائے گا جس کو آٹھ فرشتے اٹھائے ہوں گے (اور ہر ایک کے ساتھ ہزاروں کی جماعت ہوگی) پھر بنی آدم خدا تعالیٰ کے حضور میں لائے جائیں گے، کوئی شخص مخفی نہ رہ سکے گا نہ کوئی بات اس سے مخفی رہے گی۔ پھر جس کو نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا گیا جو نیک ہونے کی علامت ہے تو وہ خوشی میں آ کر لوگوں سے یا خدا کی طرف سے نامہ اعمال دیکھنے والوں کو کہے گا۔ لو میرا نامہ اعمال دیکھو اور میں پہلے سے سمجھا ہوا تھا کہ حساب لیا جائے گا اس لیے دنیا میں نیک کام کرتا اور بدیوں سے بچتا رہا۔ پھر وہ عمدہ عیش میں ہوگا۔ یعنی حیات جاودانی عطا ہوگی اور سعادت باقیہ ملے گی، بلند یا بیش قیمت باغوں میں رہے گا جس کے میوے جھکے ہوں گے یعنی پختہ کس لیے کہ پختگی پر میوے جھکے جاتے ہیں یا اس کے لیے قریب ہوں گے توڑنے میں دقت نہ ہوگی۔ ہاتھ بڑھایا اور توڑ لیا، ان کو سنا دیا جائے گا، کھاؤ پیو، مزے کرو۔ یہ تمہارے نیک اعمال کا بدلہ ہے جو دنیا میں تم نے کئے تھے اور جس کا اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ افسوس و حسرت سے کہے گا کیا ہوتا جو میرا اعمال نامہ مجھے نہ ملتا اور میرا حساب مجھے نہ بتلایا جاتا پھر وہاں کی سختی اور عذاب اور طرح طرح کی رسوائی دیکھ کر موت کی آرزو کرے گا کہ کاش میں مر جائوں تو اس بلا سے چھوٹ جائوں مگر وہاں پھر موت کہاں ؟ وہاں دنیا کی نعمتیں یاد کر کے روئے گا کہ آج میرا مال کچھ کام نہیں آیا نہ کوئی رشوت لیتا ہے نہ مالدار سمجھ کر لحاظ و عزت کرتا ہے یا یہ کہ دنیا میں نیک کاموں میں صرف کرتا تو یہاں کام آتا جیسا کہ اوروں کے کام آرہا ہے اس کے بدلے میں اس کی سزائیں کم ہو رہی ہیں، اجر مل رہے ہیں اور نہ آج میری عزت و حشمت و شوکت کچھ کام آئی۔ یہاں بادشاہ و فقیر دونوں برابر ہیں نہ کوئی خاندان کو پوچھتا ہے نہ حسب و نسب دریافت کرتا ہے یا یہ کہ میری حجت و دلیل باطل ہوگئی جو دنیا میں باطل مذہب اور بیہودہ باتوں کے برحق ثابت کرنے میں کیا کرتا تھا اور بڑی زبان چلایا کرتا تھا۔ پھر اس کے لیے حکم ہوگا کہ اس کو پکڑو اور اس کے گلے میں طوق پہناؤ (وہ اس کے اعمالِ بد ہوں گے) اور اس کو دہکتی آگ میں ڈالو اور ستر گز کی زنجیر میں جکڑو یہ اس لیے کہ نہ یہ اللہ پر ایمان لاتا تھا نہ اس کے اعمال اچھے تھے، مالی عبادت سے بھی دور تھا کس لیے کہ فقراء کو آپ کھلانا تو درکنار اور کو بھی رغبت نہیں دلاتا تھا۔ یہ آیات کا خلاصہ مطلب تھا۔ اب ان کے متعلق کچھ فوائد ہیں جو خالی از لطف نہ ہوں گے۔ وہی ہذہ۔ فائدہ (1): پہلے نفخہ پر تمام عالم خراب و برباد ہوجائے گا اس کے بعد جب باردگر نفخہ صور ہوگا اور چیز باردگر ہوگی تب عدالت کے لیے لوگ خدائے پاک کے روبرو لائے جائیں گے حالانکہ آیت میں وانشقت السماء کے بعد عرش اٹھانے کا ذکر کر کے کہہ دیا آج کے روز پسپا کئے جاؤ گے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یومئذ تعرضون سے مراد وہی دن نہیں کہ جس روز خراب عالم کے لیے نفخہ صور ہوگا بلکہ اور دن، یا یوں کہو یوم سے مراد زمانہ ہے جس میں نفخہ اولیٰ و ثانیہ و صعقہ و نشور و حساب و وقوف سب کچھ ہوگا۔ یوم زمانہ اور وقت کے لیے کلام عرب میں بکثرت مستعمل ہے۔ فائدہ (2): والملک علیٰ ارجائہا ملک سے ایک فرشتہ مراد نہیں بلکہ جنس۔ یہ عالم کے برباد ہونے کی کسی گھر کے برباد ہونے سے تمثیل ہے کہ جب وہ گھر گرنے کو ہوتا ہے تو وہاں کے لوگ نکل کر باہر کنارے کھڑے ہوجاتے ہیں گو بعد میں وہ بھی ہلاک ہوجائیں گے اور جو ہلاک نہ مانے جائیں تو بھی ممکن ہے کس لیے کہ ایک جگہ آیا ہے الامن شاء اللہ پس ممکن ہے کہ ملائکہ مستثنیٰ ہوں۔ فائدہ (3): ویحمل عرش ربک فوقہم یومئذ ثمانیہ ایسا ہی مضمون سورة زمر کی اس آیت میں ہے۔ وتری الملائکۃ حافین من حول العرش۔ اب کلام یہ ہے کہ تخت رب العالمین کے سر پر اٹھانے سے کیا مطلب ؟ بیضاوی فرماتے ہیں کہ یہ ایک تمثیل ہے لوگوں کے سمجھانے کے لیے۔ دنیا میں بادشاہوں کے دربار اور ان کے تحت عدالت سے کہ جس کو خدام کی جماعۃ عزت و احترام سے دربار میں لا کر رکھتے ہیں تاکہ وہ اس پر بیٹھ کر عدالت کرے۔ بعض علماء اس کو حقیقت پر محمول کرتے ہیں ان کے نزدیک کوئی تاویل اور توجیہ آیات و احادیث میں جائز نہیں ہر ایک کو ان کے ظاہری معنی پر محمول کرنا دراصل قرآن و احادیث کا ماننا کہتے ہیں۔ اگرچہ خوش اعتقادی کا یہی مقتضا ہے مگر جب اسلوب کلام میں غور کیا جائے اور یہ بھی تسلیم کرلیا جائے کہ قرآن مجید اعلیٰ درجہ کی بلاغت و فصاحت کے قوالب میں ڈھلا ہوا ہے تو یہ ضرور تسلیم کرنا ہوگا کہ بلغا کے کلام میں مجاز ‘ استعارہ ‘ تمثیل و تشبیہ ‘ بہت کچھ ہوتا ہے۔ محاورات زبان اور عرف کا بہت خیال ہوتا ہے اور قرآن مجید میں یہ سب باتیں موجود ہیں پھر جس طرح معتزلہ کا یہ قول تفریط ہے کہ مہما امکن حقیقی معنی ہونے پر بھی وہ تاویل کرتے ہیں اور اس طرح کی تاویلات کا دروازہ کھولنا متکلم کی مراد کو ظاہر نہیں ہونے دیتا۔ انہیں کی تقلید سے آج کل کے تعلیم یافتہ قرآن کو خیالات مغربیہ پر تاویلات کے ذریعہ سے مطابق کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ اسی کو مغز سخن تک پہنچنا اور اعلیٰ درجہ کی لیاقت سخن فہمی قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح بالکل تاویل و توجیہ ‘ استعارہ ‘ کنایہ ‘ مجاز ‘ تمثیل کا دروازہ بند کر کے ظاہری معنی پر محمول کرنا سخت افراط ہے جو کلام کو ہمل اور بےنمک بلکہ غلط بنا دینے کا پورا ذریعہ ہے۔ اب اپنے قاعدے کے موافق ہر فریق قرآن مجید کے ایسے مواقع میں تفسیر کرتا ہے مگر حق وہی بات ہے کہ جس کو اہل سنت والجماعۃ کے علماء ربانیین اختیار کئے ہوئے ہیں وہ یہ کہ جہاں تک ظاہری معنی مراد لیے جاسکتے ہوں تو کلام کو ضرور حقیقی معنی پر محمول کرنا چاہیے اور جہاں تعذر ہو خواہ عقل سلیم کے فتویٰ سے خواہ اصول اسلامیہ و دیگر آیات و احادیث صریحہ کی وجہ سے تو وہاں ضرور مجاز پر محمول کرنا پڑے گا مگر مجازی معنی کی زمام بھی ہر ایک کے ہاتھ میں نہیں بلکہ علمائِ راسخین کے۔ آیات مذکور میں معتزلہ تاویل کرتے ہیں کہ عرش و کرسی کے معنی مجازی مراد ہیں۔ تسلط و حکومت وغیرہ اور فرشتوں کے سر پر اٹھانے سے مراد ان کے ذریعہ سے اس کا ظہور ہے۔ اہل سنت میں سے بیضاوی وغیرہ علمائِ کلام فرماتے ہیں کہ یہ تمثیل ہے کس لیے کہ خدائے پاک مجسم نہیں جو کسی تخت پر بیٹھے یا اس کے لیے کوئی جگہ معین کی جائے۔ یہ چیزیں اس کے لیے حدوث اور نقصان کا باعث ہیں۔ اسی طرح صوفیہ کرام بھی ظاہری معنی مراد نہیں لیتے۔ پھر ان میں سے کسی نے کہا کہ عرش مجید صورت جہانداری حق سبحانہ تعالیٰ کی ہے یعنی اس کی جہانداری اور بادشاہت کو عرش سے تعبیر کیا ہے اور قیامت میں وہ بصورت عرش یعنی تخت شاہی ظہور کرے گی اور اس کی جہانداری دنیا میں چار صفت سے ہے کہ موجودات میں کوئی ذرہ بھی ان سے خالی نہیں وہ سب کو محیط ہیں۔ اول علم، دوم قدرت، سوم ارادہ، چہارم حکمت، آخرت میں ان چاروں صفتوں کے ساتھ چار صفات اور زیادہ ہوں گی تاکہ دونوں جہانداریوں میں امتیاز کلی ہوجائے اور وہ چار یہ ہیں۔ اول ظہور انکشاف تام کہ اس عالم میں ہر چیز کی اصل حقیقت ہر ایک پر واضح ہوجائے گی۔ دھوکا اور شبہ اور غلطی نہ رہے گی وہاں جاہل و عالم کافر و مومن سب پر حقائقِ خفیہ برابر ظہور ہوں گے۔ اس بات پر قرآن مجید میں بھی کئی ایک جگہ اشارہ ہے۔ ازانجملہ یوم تبلی السرائرو اسمع بہم وابصر یوم یاتوفنا فکشفنا عنک غطاءک فبصرک الیوم حدید۔ دوم کمال بلوغ کہ ہر چیز مرتبہ نقصان سے اپنے موافق مرتبہ کمال پر پہنچ جائے گی۔ استعداد و قابلیت کا مرتبہ فعلیت پر آجائے گا یہاں تک کہ جو دنیا میں لنگڑے لولے، اندھے، زخمی بیمار مرے تھے صحیح وسالم اٹھیں گے اور اسی طرح قوائے باطنیہ کا حال ہوگا۔ خلودو بقائے غیر متناہی بھی اسی صفت کی وجہ سے ہوگی جس کا اس آیت میں اشارہ ہے۔ ان الدار الآخرۃ لہی الحیوان لوکانو ایعلمون۔ سوم تقدس کہ کدورات والواث سے ہر شے دور ہوجائے گی کس لیے کہ عالم حدثی کا چھلکا دور ہو کر عالم باقی وصافی کا جوہر نکل آئے گا۔ چہارم صفت عدل و ابقائے حق کہ جس کے سبب پورا پورا انصاف ہوگا۔ ہر ایک کو اسی کے پیمانے سے تول کردیا جائے گا۔ پھر جب اس عالم میں جہانداری کے ساتھ جس کو عرش کہا گیا یہ چار صفات اور مل گئیں تو گرانی اور وزن بڑھ گیا اور اس عرش معنوی کو عرش صوری کے ساتھ ایک خاص مشابہت ہے۔ دنیا میں یہ عرش جہانداری چار فرشتوں پر تھا جو ان چار صفتوں کے مظاہر تھے آخرت میں اس گرانباری کی وجہ سے چار اور بڑھائے جائیں گے جو ان چار صفتوں کے مظاہر ہوں گے۔ یہ معنی ہیں قیامت میں آٹھ فرشتوں کے تخت رب العالمین اٹھانے کے۔ بعض فرماتے ہیں عرش رب العالمین سے مراد انسان کا قلب ہے آج اس کو چار صفات اٹھائے ہوئے ہیں۔ قیامت میں آٹھ اٹھائیں گی اور اٹھانا عبارت ہے ان صفات کے استیلاء سے۔ پھر ان صفات میں کلام طویل ہے۔ فائدہ (4): عرش ربک سے وہ عرش مراد ہے جس کو سب آسمانوں کے اوپر کہتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں یہی عرش قیامت میں دربار عدالت کے لیے لا کر رکھا جائے گا۔ بعض کہتے ہیں وہ اور ہوگا۔ قریب الفہم وہی قول ہے جو بیضاوی نے فرمایا ہے کس لیے کہ انسان اس عالم ناسوت میں کسی معنی کو صور و اشکال سے مجرد کر کے بمشکل سمجھتا ہے اور ہر ایک معنی کی اپنے مشاہد صور میں تصویر کھینچتا ہے۔ اب صرف فرمانا تو یہ مقصود تھا کہ قیامت کے دن خدائے ذوالجلال جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے عدالت کرے گا اور خیال انسانی اس عدالت کی تصویر تمام شاہانہ تجملات میں کھینچتا ہے کہ تخت ہوگا اور اس کے گرد ایسے خدام و سپاہ ہوں گے جیسا کہ اوالوالعزم شاہوں کے دربار میں ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ انسانی ادراک سے بھی بہت دورتر ہے۔ اس کے دربار اور اس کی عدالت کی اصل حقیقت بیان کرنے کے لیے نہ الفاظ ہیں اور نہ اذہان انسانیہ تیار ہیں۔ لیکن اس حقیقت کو اس کے مشابہ تصویر میں بیان فرمانا پورا اظہار ہے اس لیے تخت لایا جانا اور تخت پر جلوس فرمانا اور تخت کے اردگرد ملائکہ کا صف بستہ کھڑا ہونا اور مجرموں اور نیکوں کا پیش ہونا اور اپنے ایمان اور نیک اعمال کی جزا اور کفروبدکاری کی سزا حیات جاودانی یا رنج و عذاب دائمی پانا اور ان کا مسرت کرنا اور ان کا حسرت و افسوس کرنا ایک سچے واقعہ کی تصویر کھینچتا ہے۔ نہ محض ترغیب و ترہیب ہے جیسا کہ کوڑھ مغز اور تنگ دماغ خیال کرتے ہیں۔ فائدہ (5): یومئذ تعرضون سے لے کر اخیر تک اس عدالت کی کیفیت بیان فرماتا ہے کہ سب حاضر ہوں گے کوئی بات مخفی نہ رہے گی۔ پھر آگے جزاء و سزا کی تشریح کرتا ہے کہ جس کی کتاب (یعنی نامہ اعمال جو دنیا میں کراماً کاتبین نے اس کے نامہ اعمال کا روزنامچہ لکھا تھا اور وہ ایک عالم غیب کا فوٹو ہے ہماری قلموں اور ہمارے کاغذوں کا لکھا ہوا دفتر نہیں) اس کے دائیں ہاتھ میں دی گئی تو وہ خوش ہوگا اور جس کے بائیں ہاتھ میں دی گئی وہ روئے پیٹے گا، داہنا ہاتھ اشارہ ہے جانب اقویٰ سے جو عقل و نور و غلبہ ایمان کی جانب ہے اور بایاں ہاتھ اشارہ ہے جانب اضعف نفسانی حیوانی کی طرف۔ فائدہ (6): ھیا ہنا سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں وہ چیز جو بےمشقت ملے (قاموس) ہن، گواراشدن طعام و شراب ہنی گوارندہ ھینًا منصوب ہے یا اس لیے کہ مفعول مطلق کی صفت ہے اے اکلاوشرباہنیا یا صفت ہے مصدر کے قائم مقام کی گئی ہے اے ہنئتم ہنیا۔ ہنی بروزن فعیل والمصدر ہن۔ اس کے بعد جہنمیوں کی کیفیت بیان فرماتا ہے کہ اس کے لیے فرشتوں کو حکم ہوگا خذوہ کہ اس کو پکڑو قہرو عذاب میں فغلوہ پھر اس کے ہاتھ اس کی گردن میں باندھو غل بالضم گردن بند جمعہ اغلال۔ صراح۔ یہ اس لیے کہ اس نے دنیا میں فراخ دستی کی نعمت کا شکریہ ادا نہ کیا تھا اور کارخیر میں ہاتھ نہ کھولے تھے۔ ثم پھر حکم ہوگا الجحیم صلوہ پھر اس کو دہکتی آگ میں ڈال دو یعنی باندھ کر ڈالو کہ ہاتھ پائوں نہ مار سکے۔ ثم پھر حکم ہوگا فاسلکوہ کہ ستر گز لمبی زنجیر میں جکڑ دو کہ پڑا پڑا جگہ سے ہلنے بھی نہ پائے بعض علماء کہتے ہیں ستر گز سے تعداد مقصود نہیں بلکہ طول مراد ہے جیسا فی سلسلۃ ذر عھاسبعون ذراعا اس آیت میں ان تستغفرلہم سبعین مرۃ مراد مرات کثیرہ ہیں۔ لمبی زنجیر اشارہ ہے اس کے حرص و ہوا و طول امل دنیا کی طرف کہ بڑی بڑی لمبی زنجیروں میں دنیا کی بندھا ہوا تھا جن کا اس کے خیال میں کہیں سلسلہ منقطع نہیں ہوتا تھا۔ یوں ہوگا اور یوں ہوگا۔ اس میں خدا تعالیٰ سے غافل رہا کہ موت آگئی۔ جس کو وہاں کی زنجیر سے بچنا ہو یہاں کی زنجیر سے نکلے۔ شہوات و لذات کی لمبی زنجیریں اس کو جکڑے ہوئے ہیں اور طوق بھی گلے میں بدکاری اور اخلاق رذیلہ کے پڑے ہوئے ہیں اور شہوت و حرص کی دہکتی آگ میں ایسی زنجیروں میں جکڑا ہوا پڑا ہے۔ مردان خدا ہی ان بیڑیوں اور اس آگ سے نکل بھاگے ہیں دنیا کے کاروبار کرتے ہیں، بیاہ شادی کرتے ہیں مگر دل نہیں لگاتے۔ لیکن بقدر ضرورت۔ پھر آگے ان جہنمیوں کا اصل جرم بیان فرماتا ہے کہ جس کے سبب وہ آج اس جرم میں گرفتار ہوئے فقال انہ کان کہ تسلسل حوادث کا قائل تھا اور اسباب کی زنجیروں میں بند تھا۔ ہر حادثہ کو اس کے سبب کی طرف منسوب کرتا تھا۔ مسبب الاسباب تک نظر نہیں پہنچتی تھی اس لیے لایؤمن باللہ العظیم وہ اللہ بزرگ برتر پر ایمان نہیں لاتا تھا۔ یہ اشارہ ہے کہ اس کی قوۃِ نظریہ باطل ہوچکی تھی۔ وہ احمق ان پتلیوں کو آپ سے حرکت کرنے والا سمجھا ہوا تھا۔ یہ نہیں جانتا کہ پس پردہ کوئی اور حرکت دے رہا ہے۔ ایک خدائے بزرگ برتر کو چھوڑ کر سینکڑوں اسباب کی طرف دوڑا دوڑا پھرتا تھا اور اپنی طمع اور خام خیالی سے بہت چیزوں کو قضاء وقدر کا مالک و مختار جان کر ان کی طرف رجوع کرتا تھا۔ الغرض یہ کافر و مشرک تھا توحید و ایمان کی روشنی نصیب نہ تھی اس کے سوا قوۃِ عملیہ بھی باطل ہوگئی تھی۔ ولایحض علیٰ طعام المسکین کس لیے کہ عملی کاموں میں عبادت کے بعد نفع خلائق اعلیٰ درجہ کی نیکوکاری ہے۔ پھر یہ بدبخت خدائے بزرگ پر تو ایمان ہی نہیں رکھتا تھا کہ یہ سمجھتا تھا کہ اس کھانا کھلانے کا بدلہ دنیا اور آخرت میں خدا پاک دے گا اس کی رضامندی ہمارے لیے کام آئے گی۔ پھر آپ مسکین غریب کو روپیہ پیسہ دینا کپڑا پہنانا، راحت پہنچانا تو درکنار معمولی کھانا بھی نہیں دیتا تھا اور دینا تو درکنار اوروں کو بھی اس طرف رغبت نہیں دلاتا تھا بلکہ اس کام کو عبث اور فضول جانتا تھا۔ کبھی یہ حیلہ کرتا تھا کہ ہمارے پاس کچھ نہیں، کبھی یہ کہ ان کا ہمارے اوپر کیا حق ہے۔ اور ان لوگوں کو دینا بےہمتی، بےغیرتی، گداگری سکھانا ہے۔ یہ گفتگو ان درماندوں کے حق میں کہ جو دراصل قابل ترحم ہیں محض بخل اور اندرونی خباثت پر مبنی ہے۔ ایسی تنگی اور مصیبت کے ٹالنے یا کم کرنے کے دو ہی سبب ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ تسلی دلاسا دینے والا اور چارہ گری کرنے والا ہو۔ دوم یہ کہ ایسی درماندگی کے وقت کھانا کھلایا جائے اور اسی لیے اہل مصیبت کے ساتھ تعزیت میں یہ دونوں باتیں برتی جاتی ہیں۔ تسلی دلاسا بھی دلایا جاتا ہے، کھانا بھی کھلایا جاتا ہے سو اس کے لیے یہ دونوں نہ ہوں گے۔ فلیس لہ الیوم ھھنا حمیم کہ آج اس کا یہاں کوئی دوست حمایتی نہ ہوگا جو اس کو چھڑا وے۔ یہ اس لیے کہ بڑا حمایت کرنے والا اللہ ہے اور اس کی حمایت کا پرتو دوسرے حامیوں کے دلوں پر پڑتا ہے جو حمایت پر کمر باندھتے ہیں سو اللہ پر تو اس کا ایمان ہی نہ تھا اس سے بگاڑ رکھی تھی۔ ولاطعام اور نہ کھانا ہے کس لیے کہ دنیا میں یہ کسی کو نہیں کھلاتا تھا۔ الامن غسلین ہاں وہ جو لوگوں کے دل دکھاتا تھا اب ان زخمیوں کا دھو ون ضرور پینے کو ملے گا جو خطاکاروں کا کھانا ہے۔
Top