Tafseer-e-Mazhari - Al-Haaqqa : 13
فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَةٌ وَّاحِدَةٌۙ
فَاِذَا نُفِخَ : پھر جب پھونک دیا جائے گا فِي الصُّوْرِ : صور میں نَفْخَةٌ : پھونکنا وَّاحِدَةٌ : ایک ہی بار
تو جب صور میں ایک (بار) پھونک مار دی جائے گی
فاذا نفخ فی الصور . حضرت ابن عمر ؓ کی روایت ہے ‘ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : صور ایک سینگ ہوگا ‘ جس میں پھونکا جائیگا۔ نفخۃ واحدۃ . جب صور میں ایک بار پھونک ‘ پھونکی جائے گی۔ اس سے مراد نفخۂ بیہوشی ہے یعنی وہ نفخ جس کی آوازسن کر ہر زندہ بیہوش ہوجائے گا (اور مرجائے گا) ۔ کتنی مرتبہ صور پھونکا جائے گا ‘ تعداد میں علما کا اختلاف ہے۔ بعض کا قول ہے تین بار نفخ صور ہوگا : 1) نفخہ فزع : (جس کو سن کر سب گھبرا جائیں گے) ۔ 2) نفخہ صعق : (جس کو سن کر سب بیہوش ہوجائیں گے اور مرجائیں گے) ۔ 3) نفخہ بعث : (جس کو سن کر سب جی اٹھیں گے) ۔ اللہ نے (نفخہ فزع کے متعلق) فرمایا : و یوم ینفخ فی الصور ففزع من فی السمٰوٰت ومن فی الارض الا من شاء اللہ وکل اتوہ داخرین اور ( نفخۂ صعق کے متعلق) فرمایا : و نفخ فی الصور فصعق من فی السمٰوٰت ومن فی الارض الا من شاء اللہ اور ( نفخۂ بعث کے متعلق) فرمایا : ثم نفخ فیہ اخرٰی فاذاھم قیام ینظرون۔ یہ قول شیخ ابن عربی کا مختار ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت کردہ ایک طویل حدیث میں صراحۃً آیا ہے۔ فینفخ فیہ ثلث نفخات الاولی نفخۃ الفزع والثانیۃ نفخۃ الصعق والثالثۃ نفخۃ القیام لرب العالمین۔ ابن جریر (رح) نے اپنی تفسیر میں ‘ طبرانی نے مطولات میں ‘ ابو یعلی نے مسند میں اور بیہقی نے البعث میں اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ بعض علماء کا قول ہے کہ صرف دو بار صور پھونکا جائے گا اور نفخۂ فزع ہی نفخۂ صعق ہے۔ گھبراہٹ اور بےہوشی لازم اور ملزوم ہیں۔ لوگ صور کی آواز سن کر اتنے گھبرا جائیں گے کہ مرجائیں گے۔ قرطبی (رح) نے اسی قول کو صحیح قرار دیا ہے اور دلیل یہ پیش کی ہے کہ نفخۂ فزع اور نفخۂ صعق دونوں کے بیان میں اللہ نے بعض لوگوں کو مستثنیٰ قرار دیا ہے (اور الا من شاء اللہ دونوں جگہ فرمایا ہے ‘ دونوں جگہ) استثناء کی یہ وحدت دلالت کر رہی ہے کہ نفخۂ فزع ہی نفخۂ صعق ہے اور اکثر احادیث میں بھی دو کا ہی ذکر آیا ہے اور دونوں کے درمیان چالیس برس کی مدت ظاہر کی۔ رہی حضرت ابوہریرہ ؓ والی طویل حدیث اس کی صحت میں کلام ہے۔ اس کی صحت متفق علیہ نہیں ہے۔ ابن عربی اور قرطبی کے نزدیک صحیح ہے۔ بیہقی اور عبدالحق کے نزدیک ضعیف ہے کیونکہ اس حدیث (کی روایت) کا مدار مدینہ کے قاضی اسماعیل بن رافع پر ہے اور اسماعیل (کے ثقہ ہونے) میں کلام کیا گیا ہے۔ سیوطی نے کہا ہے کہ اس حدیث کی رفتار عبارت میں کچھ نکارت (عدم رابطہ یا بےتعلقی) ہے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ مختلف طریقہ ہائے اسناد اور متعدد مقامات سے جمع کر کے حدیث کا ایک سیاق بنایا گیا ہے۔ اذا نفخ فی الصور میں جس زمانہ کو بیان کیا گیا ہے وہ (کوئی چھوٹا وقت نہ ہوگا بلکہ) ایک لمبی مدت ہوگی جس کی تعبیر الحاقۃ ‘ القارعۃ ‘ القیامۃ ‘ الواقعۃ وغیرہ مختلف کثیر ناموں سے کی گئی ہے۔ اس مدت کا آغاز نفخۂ اوّل سے ہوگا اور اختتام اس وقت ہوگا جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں جا چکیں گے۔ ابن عساکر نے بحوالہ زیاد بن مخراق بیان کیا ہے کہ حجاج نے حضرت ابن عباس ؓ کے آزاد کردہ غلام عکرمہ سے دریافت کیا کہ قیامت کا دن دنیا کا دن ہوگا یا اس کا شمار آخرت میں ہوگا ؟ عکرمہ ؓ نے فرمایا : اس کا ابتدائی حصہ دنیا کا ہوگا اور آخری حصہ آخرت کا۔ اس بناء پر زمانۂ نفخ صور وہ بھی ہوگا جس میں پہلی مرتبہ صور پھونکا جائے گا اور وہ بھی ہوگا جب سب مرجائیں گے ‘ پھر جی اٹھیں گے اور ان کا حساب ہوگا اور آسمان پھٹ جائیں گے اور ستارے ٹوٹ کر پراگندہ ہوجائیں گے اور کچھ لوگ جنت میں اور کچھ دوزخ میں چلے جائیں گے۔ پس آیت مذکورہ میں زمان قیامت کے آغاز کو بیان کیا گیا ہے اور آیت : فھو فی عیشۃ راضیۃ اور خذوہ فغلوہ ..... میں انتہاء قیامت کا اظہار ہے۔
Top