Mutaliya-e-Quran - Al-Haaqqa : 13
فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَةٌ وَّاحِدَةٌۙ
فَاِذَا نُفِخَ : پھر جب پھونک دیا جائے گا فِي الصُّوْرِ : صور میں نَفْخَةٌ : پھونکنا وَّاحِدَةٌ : ایک ہی بار
پھر جب ایک دفعہ صور میں پھونک مار دی جائے گی
[فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ : پھر جب پھونکا جائے گا صور میں ][ نَفْخَةٌ وَّاحِدَةٌ: ایک ہی بار پھونکنا ] ترکیب : (آیت۔ 13) آگے قیامت کے واقعات کا ذکر ہے اس لیے (دیکھیں آیت۔ 2:27، نوٹ۔ 3) اور بات اِذَا شرطیہ سے شروع ہوا ہی، اس لیے بھی آگے افعال ماضی کا ترجمہ مستقبل میں ہوگا۔ نُفِخَ کا نائب فاعل ہونے کی وجہ سے نَفْخَۃٌ حالت رفع میں ہے۔ نوٹ۔ 1: زیر مطالعہ آیات کو پڑھتے ہوئے یہ بات ذہن میں ہونی چاہیے کہ قرآن مجید میں کہیں تو قیامت کے تین مراحل الگ الگ بیان کیے گئے ہیں جو یکے بعد دیگرے مختلف اوقات میں پیش آئیں گے۔ اور کہیں پہلے مرحلے سے آخری مرحلے تک کے واقعات کو سمیٹ کر یکجا بیان کردیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر سورة نمل آیت۔ 87 ۔ میں پہلے نفخ صور کا ذکر کیا گیا ہے۔ جب تمام دنیا کے انسان یک لخت ایک ہولناک آواز سے گھبرا اٹھیں گے۔ اس وقت نظام عالم کے درہم برہم ہونے کی وہ کیفیات ان کی آنکھوں کے سامنے پیش آئیں گی جو سورة حج آیات۔ 1 ۔ 2، سورة یٰسین آیات۔ 59 ۔ 50، اور سورة تکویر آیات۔ 1 تا 6 ۔ میں بیان ہوئی ہیں۔ سورة زمر آیات 67 تا 70 ۔ میں دوسرے اور تیسرے نفخ صور کے متعلق بتایا گیا ہے کہ ایک نفخ پر سب لوگ مر کر گرجائیں گے اور اس کے بعد جب دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو جب جی اٹھیں گے اور خدا کی عدالت میں پیش ہوجائیں گے۔ سورة طٰہٰ آیات۔ 102 تا 112، سورة انبیاء آیات۔ 101 تا 103، سورة یٰسین آیات۔ 51 تا 53، اور سورة ق آیات۔ 20 تا 22 میں صرف تیسرے نفخ صور کا ذکر ہے۔ لیکن یہاں اور دوسرے مقامات پر قرآن میں پہلے نفخ صور سے لے کر جنت اور جہنم میں لوگوں کے داخل ہونے تک کے تمام واقعات کو ایک ہی سلسلہ میں بیان کردیا گیا ہے۔ (تفہیم القرآن) نوٹ۔ 2: قرآن مجید میں قیامت کے جو احوال بیان ہوئے ہیں ان کا تعلق متشابہات سے ہے۔ ہمارے فہم سے قریب لانے کے لیے ان کو اپنے لفظوں میں بیان کیا جاتا ہے جن سے ان کا ایک تصور ہمارے ذہن میں قائم ہو سکے۔ یہ احوال ایک نادیدہ عالم کے ہیں، ان کا تصور دینے کے لیے یہی طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ ان کی اصل حقیقت کا جاننا اس عالم میں ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ چناچہ قرآن نے ان کے متعلق یہ ہدایت دی ہے کہ وہ جس طرح بیان ہوئے ہیں، اسی طرح ان پر اجمالی ایمان رکھا جائے۔ ان کی اصل حقیقت کے در پے نہ ہوا جائے ورنہ اندیشہ ہے کہ آدمی کسی فتنہ میں پڑجائے۔ (تدبر قرآن) قیامت کے روز عرش رحمن کو آٹھ فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ بعض روایاتِ حدیث میں ہے کہ قیامت سے پہلے تو یہ کام چار فرشتوں کے سپرد ہے۔ قیامت کے روز ان کے ساتھ چار اور بڑھا دیئے جائیں گے۔ رہا یہ معاملہ کہ عرش رحمن کیا چیز ہے اور اس کی حقیقت اور شکل و صورت کیا ہے اور فرشتوں کا اس کو اٹھانا کس صورت سے ہے، یہ سب چیزیں وہ ہیں کہ عقل انسانی ان کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ ان مباحت میں پڑنے، ان پر غور و فکر کرنے اور سوالات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ صحابہ اور تابعین کا مسلک اس جیسے تمام معاملات میں یہ ہے کہ ان پر ایمان لایا جائے کہ اس سے جو کچھ اللہ تعالیٰ کی مراد ہے وہ حق ہے ار اس کی حقیقت و کیفیت نامعلوم ہے۔ (معارف القرآن) نوٹ۔ 3: سیدھے ہاتھ میں نامۂ اعمال کا دیا جانا ہی ظاہر کر دے گا کہ اس کا حساب بےباق ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں مجرم کی حیثیت سے نہیں بلکہ صالح انسان کی حیثیت سے پیش ہو رہا ہے۔ اغلب یہ ہے کہ اعمال ناموں کی تقسیم کے وقت صالح انسان خود سیدھا ہاتھ بڑھا کر اپنا نامۂ اعمال لے گا، کیونکہ موت کے وقت سے میدان حشر میں حاضری تک اس کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا ہوگا اس کی وجہ سے اس کو پہلے ہی یہ اطمینان حاصل ہوچکا ہوگا کہ میں یہاں انعام پانے کے لیے پیش ہو رہا ہوں نہ کہ سزا پانے کے لیے۔ قرآن مجید میں یہ بات جگہ جگہ بڑی صراحت کے ساتھ بتائی گئی ہے کہ موت کے وقت ہی سے یہ بات انسان پر واضح ہوجاتی ہے کہ وہ نیک بخت آدمی کی حیثیت سے دوسرے عالم میں جا رہا ہے یا بدبخت آدمی کی حیثیت سے۔ پھر موت سے قیامت تک نیک انسان کے ساتھ مہمان کا سا معاملہ ہوتا ہے اور بدانسان کے ساتھ حوالاتی مجرم کا سا۔ اس کے بعد جب قیامت کے روز دوسری زندگی کا آغاز ہوتا ہے اسی وقت سے صالحین کی حالت و کیفیت کچھ اور ہوتی ہے جبکہ کفار، منافقین اور مجد کی کچھ اور۔ سورة انشقاق میں فرمایا گیا ہے ” اور جس کا نامۂ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا۔ “ غالباً اس کی صورت یہ ہوگی کہ مجرم کو چونکہ پہلے ہی سے اپنے مجرم ہونے کا علم ہوگا اور وہ جانتا ہوگا کہ اس کے نامۂ اعمال میں اس کا سارا کچا چٹھا درج ہے اس لیے وہ نہایت بےدلی کے ساتھ اپنا بایاں ہاتھ بڑھا کر اسے لے گا اور فوراً پیٹھ کے پیچھے چھپالے گا تاکہ کوئی دوسرا اسے دیکھنے نہ پائے۔ (تفہیم القرآن)
Top