Mafhoom-ul-Quran - Al-Haaqqa : 13
فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَةٌ وَّاحِدَةٌۙ
فَاِذَا نُفِخَ : پھر جب پھونک دیا جائے گا فِي الصُّوْرِ : صور میں نَفْخَةٌ : پھونکنا وَّاحِدَةٌ : ایک ہی بار
تو جب صور میں ایک بار پھونک مار دی جائے گی
قیامت کا نقشہ تشریح :۔ جدید Cosmology کا اہم موضوع آج کل یہی ہے کہ کائنات کا انجام کیا ہوگا ؟ سائنس کے تجربات اس بارے میں ہمیشہ بدلتے رہیں گے کیونکہ وہ اس کے خالق نہیں ہیں۔ اس کے خالق نے قرآن پاک میں جو حقیقت اور جو اصل نقشہ بتا دیا ہے وہی سوفیصد سچ اور حقیقت بھی ہے۔ یہاں جو نقشہ پیش کیا گیا ہے وہ بڑا ہی ہولناک ہے۔ یعنی صور پھونکا جائے گا جس کی آواز ناقابل برداشت ہوگی۔ اس آواز کی وضاحت سلطان بشیر صاحب نے یوں کی ہے۔ زمین اپنے اندر بھی اپنی تباہی کے سامان چھپائے ہوئے ہے اس کے پیٹ میں ہزاروں درجہ حرارت پر سخت دباؤ میں پگھلا ہوا مادہ ہے ” اگر کہیں یہ پھٹ جائے تو فوری قیامت آسکتی ہے اور یہ سب کچھ اس سرعت کے ساتھ ہوگا کہ کسی کو ہوش بھی نہ ہوگی کہ کچھ کرسکے۔ جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب یہ واقعہ ہوگا تو انسان کے ہاتھ میں کھانے کا جو لقمہ ہے اس کو منہ میں ڈالنے کا موقع بھی نہ مل سکے گا۔ (صحیح بخاری) مزید لکھتے ہیں۔ بیرونی اسباب کی بنا پر بھی زمینی قیامت ایک حقیقت ہے۔ فرض کرو ایک بڑا شہاب ثاقب بہت بڑا بھی نہیں بلکہ کوئی دس مربع میل کیوب کا پتھر گر کر زمین سے ٹکراتا ہے تو اس تصادم سے تمام ذی روح ختم ہوسکتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں زبردست دھماکہ جس کو صور پھونکنا کہا جاسکتا ہے اور کشش ثقل کا ختم ہونا بھی ممکن ہے جس کی وجہ سے ہر چیز زمین کو چھوڑ کر اڑنے لگے گی اور یکدم ریزہ ریزہ بھی ہوجائے گی اس طرح کی قیامت کا یقین تو سائنسدان بھی کرچکے ہیں کیونکہ چھوٹی قیامت یں تو بیشمار آ چکی ہیں جن کی وضاحت مصنف موصوف یوں کرتے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ آج سے 20 کروڑ سال پہلے سائبیریا کے علاقے میں ہزاروں کی تعداد میں آتش فشاں پھٹ پڑے اور لاکھوں سالوں تک وہ لاوا دھواں اور تیزابی گیس فضاء میں بکھیرتے رہے نتیجتاً اس وقت جو بھی زمین پر رہتا تھا معدوم ہوگیا اسی طرح ایک اور قیامت چھ کروڑ سال پہلے بھی آئی تھی جو دس مربع میل شہاب گرنے سے آئی تھی۔ لیکن اس کی تباہی لاکھوں ایٹم بموں سے بھی زیادہ تھی فضا گردوغبار سے بھرگئی سورج کی روشنی زمین پر پہنچنا بند ہوگئی اور درجہ حرارت گرگیا اور یوں چند صدیوں میں اس ٹھنڈی قیامت نے سب کچھ ختم کردیا ایسی ہی ایک ٹھنڈی قیامت پچاس ہزار سال پہلے بھی آئی تھی۔ (از قیامت اور حیات بعد الموت) ایسی قیامتوں کا ذکر قرآن پاک میں بھی ہوچکا ہے۔ مگر یہاں اس ارضی قیامت کا ذکر ہے جو پوری کائنات کی مکمل اور بڑی قیامت کا خاکہ بیان کیا گیا ہے اور پھر اس اجتماع کا ذکر ہے جو میدان حشر میں ہونے والا ہے۔ جب ہم تفہیم القرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو مولانا مودودی صاحب نے کچھ یوں لکھا ہے۔ قرآن مجید میں کہیں تو قیامت کے تین مراحل علیحدہ علیحدہ بیان کئے گئے ہیں اور کہیں تمام مراحل کو سمیٹ کر ایک جگہ بیان کردیا گیا ہے جیسا کہ یہاں اور کئی دوسرے مقامات پر بھی پہلے نفخ صور سے لے کر جنت اور جہنم میں لوگوں کے داخل ہونے تک قیامت کے تمام واقعات کو ایک ہی سلسلے میں بیان کردیا گیا ہے۔ (ابوالاعلی مودودی (رح) ) تفسیر ابن کثیر میں حدیث بیان کی گئی ہے جو عرش اور فرشتوں کی وضاحت کرتی ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں آسمان میں سوراخ اور غار پڑجائیں گے ” عرش اس کے سامنے ہوگا ” فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے جو کنارے اب تک ٹوٹے نہ ہوں گے اور دروازوں پر ہوں گے آسمان کی لمبائی پر پھیلے ہوئے ہوں گے اور زمین والوں کو دیکھ رہے ہوں گے پھر فرمایا قیامت والے دن آٹھ فرشتے اللہ تعالیٰ کا عرش اپنے اوپر اٹھائے ہوں گے ” پس یا تو مراد عرش عظیم کا اٹھانا ہے یا اس عرش کا اٹھانا مراد ہے جس پر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کے فیصلے کے لیے ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ میرے خیال میں اس کی مزید وضاحت سے گریز کرنا بہتر ہے۔ اس روز تم سب لوگوں کے سامنے پیش کئے جاؤ گے اور تمہاری کوئی بات چھپی نہ رہے گی۔ (آیت 18) اگلی کاروائی ملاحظہ ہو۔
Top