Mualim-ul-Irfan - Al-Haaqqa : 13
فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَةٌ وَّاحِدَةٌۙ
فَاِذَا نُفِخَ : پھر جب پھونک دیا جائے گا فِي الصُّوْرِ : صور میں نَفْخَةٌ : پھونکنا وَّاحِدَةٌ : ایک ہی بار
پس جب صور میں پھونکا جائے گا ایک ہی بار پھونکنا۔
گزشتہ سے پیوستہ : اس سورة کا موضوع جزائے عم ہے اور قیامت کا ذکر ہے۔ پہلی آیات میں کا ذکر فرمایا۔ چند گزشتہ اقوام کا ذکر کیا جو قیامت کو جھٹلاتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر حاقہ واقع کیا اور یہ دو قسم سے وار ہوتا ہے۔ ایک ابتلا ہوتی ہے ، وقتی طور پر تکلیف آئی اور دور ہوگئی۔ اس کے بعد پھر موقع مل گیا۔ سز کی دوسری قسم یہ ہوتی ہے کہ مذکورہ اقوام کو اس دنیا میں ہی سزا ملی اور پھر اٹھایا نہیں گیا۔ وہ لوگ اس دنیا سے رخصت ہوئے اور عالم برزخ میں سزا پا رہے ہیں۔ ان اقوام میں شرک و کفر تھا اور انکا رسالت بھی ، یہ لوگ قیامت کا بھی انکار کرتے تھے۔ تو یہ قیامت کے جھٹلانے کا نتیجہ تھا کہ وہ لوگ دنیا میں ہی سزا میں مبتلا ہوگئے۔ دنیا میں آزمائش میں ڈالنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ تاکہ انسان گڑ گڑانے لگیں۔ عاجزی کریں اور گناہوں سے تائب ہوجائیں۔ دوسری نوعیت سزا کی یہ ہوتی ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے قوم عاد ، قوم ثمود ، فرعون ، قوم لوط اور قوم نوح پر مسلط کی۔ ان کا مواخد ہ ہوا سزا ملی اور ہلاک ہوگئے۔ صورِ اسرافیل : دنیا میں واقع ہونے والے چھوٹے چھوٹے حاقے بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اب محاسبے کا ذکر فرماتے ہیں۔ جب صور میں پھونکا جائے گا ، ایک ہی بار پھونکنا۔ صور پھونکنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرشتہ مقرر کیا ہوا ہے وہ مقررہ وقت پر صور پھونکے گا۔ ایک دیہاتی شخص نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ حضور ! صور کیا ہے۔ فرمایا یہ سینگ کی مانند ایک طرف سے باریک اور دوسری طرف سے کشادہ ہے اور فرشتے نے منہ میں پکڑ رکھا ہے۔ سر جھکائے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکم کا منتظر ہے جب حکم ہوگا صور پھونک دے گا الغرض حضور ﷺ نے فرمایا کہ صور بگل کی مانند ، سینگ جیسانوکدار ہے۔ شیخ ابن عربی (رح) جو صاحب کشف تھے ، فرماتے ہیں کہ صور کا دہانہ اتنا بڑا ہے کہ ساتوں زمین اور ساتوں آسمان اس کے دہانے میں پڑے ہوئے ہیں اور قرآن پاک سے صراحت کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ صور دو مرتبہ پھونکا جائے گا۔ پہلی دفعہ نظام کا ئنات کو درہم برہم کرنے کے لیے دوسرا زندہ کرنے کیلئے۔ زمین و آسمان ریزہ ریزہ ہوجائیں گے : جب پہلی دفعہ صور پھونکا جائے گا تو حالت یہ ہوگی کہ زمین اور پہاڑ اٹھائے جائیں گے تو ان کو کوٹ دیا جائے گا ایک ہی دفعہ کوٹ دیا جانا۔ یعنی زمین و آسمان کو یکبارگی ایسا باریک کردیا جائے گا جیسا ہاون دستے میں کوئی چیزکوٹ کر باریک کردی جاتی ہے۔ اور یہ گرد و غبار کی مانند ہوجائیں گے۔ دوسری جگہ فرمایا۔ سورج اور ستاروں کا بیان فرمایا۔ جو شخص قیامت کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہے تو وہ سورة شمس ، سورة واقعہ اور سورة عم یتساء لون کو پڑھ لے۔ تو فرمایا جب قیامت برپا ہوگی تو پہاڑ جو سب سے مضبوط ہیں۔ ان کو کوٹ دیا جائے گا۔ اور وہ گرد غبار کی مانند اڑنے لگیں گے۔ سمندر بھاپ بن کر اڑ اجائیں گے۔ کتنا خوفناک منظر ہوگا۔ قیامت بر پا ہو جائیگی : پس اس دن واقع ہوجائے گی واقع ہونے والی۔ یہ واقعہ قارعہ ، طامہ وغیرہ قیامت ہی کے مختلف نام ہیں وہ حاقہ یعنی ثابت شدہ چیز ہے وہ تو ضرور ہو کر رہنے والی ہے اور واقعہ یعنی واقع ہوجائے گی۔ اس نام پر ایک مستقل سورة بھی ہے سورة واقعہ یعنی جب وہ واقع ہونے والی چیز واقع ہوجائے گی اور اس کے واقع ہونے کی بات غلط نہیں ہے۔ اس سورة میں بھی یہی مضمون ہے کہ پہاڑچلا دیے جائیں گے۔ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اور آسمان کا یہ حال نہیں رہے گا جواب نظر آتا ہے۔ اور آسمان پھٹ جائے گا۔ سارا معاملہ درہم برہم ہوجائے گا۔ آسمان اس دن بڑا بکھرنے والا ہوگا۔ واہیہ کا معنی کمزور۔ آج تو آسمان مضبوط چھت کی صورت نظر آتا ہے۔ اس کے اندر بڑے بڑے کرے نظر آتے ہیں مگر جس دن یہ واقعہ پیش آئے گا۔ اس دن کچھ بھی نہیں ہوگا ۔ اور جس وقت یہ واقعہ پیش آئیگا۔ اور فرشتے اس کے اطراف پر ہوں گے ۔ فرشتوں پر بھی دہشت طاری ہوگی۔ کیونکہ ساری کائنات پر دہشت طاری ہوگی۔ جیسا کہ سورة انبیاء اور دوسری سورتوں میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ ہر طرف ایک مدہوشی طاری ہوگی۔ اور فرشتے اس کے اطراف و اکناف پر ہوں گے۔ حاملین عرش فرستے : اور اٹھائیں گے تیرے رب کے عرش کو اپنے اوپر اس دن آٹھ۔ حدیث میں آتا ہے کہ اس وقت حاملین عرش پر فرشتے چار ہیں۔ جب قیامت واقع ہوگی تو اس وقت ان کی تعداد آٹھ ہوجائے گی۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں۔ کہ یہ بات انسان کی تفہیم اور اس کے ذہن کے قریب کرنے کے لیے بیان کی ہے۔ کیونکہ عرش کا نظام بھی ایسا ہی ہے جیسے نظام حکومت ہوتا ہے۔ تو مطلب یہ ہے کہ قیامت کے روز حاملین عرش آٹھ ہوں گے۔ باقی رہی فرشتوں کی کیفیت کہ وہ عرش کو کس طرح اٹھائے ہوئے ہیں تو یہ باتیں انسانی عقل سے بالا ہیں۔ اس پر ایمان ہی رکھنا چاہیے۔ کہ جیسا بھی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے وہ صحیح ہے ، مگر عقل انسانی سے بالا ہے۔ کہ انسانی فہم میں یہ کیفیت نہیں آسکتی۔ باقی رہی یہ بات کہ فرشتوں کو عرش کو عرش کو اٹھانے کی کیا ضرورت ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کا نظام ہے وہ جس طرح چاہے کرے۔ اتنی بات محض سمجھانے کے لیے کی ہے۔ فرشتوں کے متعلق بہت سی باتیں حدیث شریف میں آتی ہیں۔ یہ بڑی طاقت والے فرشتے ہیں۔ ابودائود شریف ابن ابی حاتم اور دوسری روایات میں ان فرشتوں کی جو حالت بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ان کے جسم کی کلانی ایسی ہے کہ کان کی لو سے کندھے تک سات سو سال کی مسافت ہے۔ اتنی بڑی کلانی ہے۔ ان فرشتوں کی اتنی بڑی بڑی جسامت ہے اس کے مقابلے میں ارض و سماء کی کوئی حیثیت نہیں قرآن پاک میں عرش الہٰی کو عرش عظیم کہا گیا ہے یعنی بہٹ بڑا عرش۔ فرمایا آج اس کو چار فرشتے اٹھائے ہوئے ہیں ، اس دن آٹھ ہوجائیں گے۔ شاہ عبد العزیز (رح) نے اس کی وجہ یوں بیان کی ہے کہ جب قیامت ہوگی تو اس دن خدا تعالیٰ کی قہری تجلی نازل ہوگی جس کی وجہ سے عرش الہٰی کا ثقل بہٹ بڑھ جائے گا۔ اس دن کائنات کا نظام ، درہم برہم ہوجائیگا اور پھر محاسبے کی منزل آئے گی تو خدا تعالیٰ کی قہری تجلی پڑ رہی ہوگی۔ اس لیے کوئی چیز اپنے ٹھکانے پر نہیں رہے گی۔ سخت گھبراہٹ ہوگی۔ عرش کا ثقل بڑھ جائے گا۔ لہٰذا اس دن اسے اٹھانے کے لیے آٹھ فرشتے مقرر ہوں گے۔ حضرت حسن بصری (رح) کی روایت میں یوں آتا ہے کہ یعنی میں نہیں جانتا کہ آٹھ اشخاص مراد ہیں یا آٹھ صفیں یا آٹھ ہزار فرشتے۔ بہرحال اتنی بات واضح ہے کہ آج چار ہیں اس دن آٹھ ہوجائیں گے۔ نظام کائنا کے لیے اللہ کی آٹھ صفات : شاہ عبد العزیز (رح) فرماتے ہیں کہ نظام کائنات کو چلانے کے لیے آج اللہ تعالیٰ کی چار صفات یعنی علم ، قدرت ، ارادہ اور حکمت کا م کررہی ہیں۔ قیامت کو چار مزید صفات کا ظہور ہوگا۔ ان میں ایک صفت انکشاف ہے۔ آج جو چیزیں مخفی ہیں ، اس دن کھلی جائیں گی۔ ہر چیز ظاہر ہوگی۔ یہ صفت انکشاف کا فیصلہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی دوسری صفت سبوغ و کما ل کا ظہور ہوگا۔ اس دن ہر چیز مکمل شکل ظاہر ہوگی۔ تیسری صفت طہارت اور تقدیس کام کرے گی۔ وہاں پر نجاست اور گندگی نہیں ہوگی۔ نجاست صرف سزا کے طور پر دوزخیوں کو دی جائے گی۔ جیسے پیپ ، خون وغیرہ عام طور پر وہاں تقدیس کا ظہور ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی چوتھی صفت عدل کا ظہور ہوگا۔ اور اس طرح گویا وقیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی آٹھ صفات کا ظہور ہوگا۔ اسی لیے فرمایا کہ اس دن ہر فرشتہ ایک صفت کے ساتھ اپنا فریضہ سر انجام دے گا۔ لیکن مفسرین فرماتے ہیں کہ چونکہ ایسی باتیں عقل میں نہیں آسکتیں لہٰذا ان پر صرف ایمان ہی رکھنا چاہیے ، اور ان کو متشابہات میں شمار کرنا چاہیے۔ عرش الہٰی پر تجلی اعظم : جیسا کہ حدیث میں آتا ہے ساتوں زمین اور ساتوں آسمان طے کرنے کے بعد بہشت آتا ہے۔ اور بہشت کے بھی آٹھ طبقات ہیں ، سب سے اوپر طبقہ جنت الفردوس ہے ، نچلے طبقے سے لے کر بالائی طبقے تک پچاس ہزار سال کی مسافت ہے۔ پھر اس کے اوپر عرش الہٰی ہے۔ عرش الہٰی بھی مخلوق ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے۔ خدا کی ذات سب سے وراء الوری ہے۔ اس عرش پرا للہ تعالیٰ کی جو تجلی پڑتی ہے۔ اس کو شاہ ولی اللہ (رح) تجلی اعظم کا نام دیتے ہیں۔ جب وہ پڑتی ہے تو پہلے عرش رنگین ہوتا ہے۔ پھر ساری کائنات رنگین ہوتی ہے۔ اور پھر اس کے نتائچ پلٹ کر جاتے ہیں یہ تجلی کب سے پڑ رہی ہے اور کب تک پڑتی رہے گی۔ یہ انسانی عقل و فکر سے باہر ہے۔ جب انسان بہشت کے مقامات عالیہ میں پہنچیں گے تو سمجھ میں آئے گا۔ اس وقت انسانی عقل کی وہاں تک رسائی نہیں ہے۔ بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کے نظام حکومت کی بات ہے۔ اس کے نظام حکومت کا ظہور اس طریقے سے ہوگا۔ مخلوق کی پیشی خالق کے روبرو : دنیا میں پیش آنے والے چھوٹے چھوٹے حاقے ذکر کر کے بتلایا کہ یہ لوگ قیامت کا انکار کرتے تھے مگر دیکھوان پر کیسے حاقے پڑے۔ اور جب بڑا حاقہ واقع ہوگا یعنی قیامت برپا ہوگی تو پھر کیا ہوگا اس دن تم پیش کئے جائو گے۔ جس طرح عدالت میں پیشی ہوتی ہے گواہ لائے جائیں گے۔ باز پرس ہوگی۔ تم میں سے کوئی نفس چھپے گا نہیں۔ دنیا میں تو کئی لوگ چھپ جاتے ہیں۔ عدالت میں پیش نہیں ہوتے حکومت ان کو تلاش کرنے سے عاجز آجاتی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ایسا نہیں ہوسکے گا۔ وہاں کوئی نہیں چھپ سکیگا۔ سے مراد یہ ہے کہ وہاں کوئی بات اور کوئی خصلت چھپ نہیں سکے گی۔ دنیا میں تو ہزاروں کروڑوں باتیں چھپی رہتی ہیں مگر وہاں کوئی بات کوئی خصلت چھپی نہیں رہیگی۔ سب ظاہر ہو جائینگی۔ یہ جو فرمایا کہ اس دن پیشی ہوگی۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس دن تین پیشیاں ایسی ہوں گی کہ سوال و جواب اور جھگڑا وغیرہ ہوگا۔ جب تیسری پیشی ہوگی تو اعمال نامے اڑنے شروع ہوجائیں گے۔ فرمایا تیسری پیشی پر کسی کو دائیں ہاتھ میں اعمالنامہ ملے گا اور کسی کو بائیں ہاتھ میں۔ دائیں ہاتھ والے : جس کو اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں ملیگا۔ وہ کہتا پھرے گا لو بھئی ! میرا اعمال نامہ پڑھ لو ، بڑا خوش ہوگا یعنی لے لو ، میرا اعمال نامہ پڑھ لو ، مجھے اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں ملا ہے کامیاب ہوگیا ہوں۔ جنت کا پاسپورٹ : بعض دوسری احادیث میں آتا ہے کہ دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ کی ملے گا گویا پاسپورٹ یا ویزا مل گیا۔ جس کے بغیر دوسری جگہ نہیں جاسکتا تھا ، یہ بہشت کا ویزا ہوگا خدا کی جانب سے فلاں بن فلاں کے لیے فرمایا کہ دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ وصول کرنے والوں کو جنت میں داخل کر دو ، وہ کامیاب ہونے والے ہیں۔ وہ مارے خوشی کے لوگوں کو اعمال نامہ دکھاتا پھرے گا اور کہے گا میں تو یقین رکھتا تھا کہ ایک نہ ایک دن حساب کا آنیوالا ہے۔ اور باز پرس ضرور ہوگی۔ جنت کی نعمت : تو دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ وصول کرنے والا آدمی بڑی پسندیدہ زندگی پائیگا۔ من مانی گزراں کرے گا۔ وہ جس قسم کی خواہش کرے گا۔ وہاں اس کی زندگی کے ویسے ہی لوازمات نصیب ہوں گے۔ کے معنی بہت پسندیدہ زندگی کے اندر ہوگا۔ بڑے اونچے باغات میں ہوگا ان کے پھل قریب ہوں گے۔ درختوں کے اوپر چڑھنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ نہ سیڑھیاں لگانی پڑیں گی ، اور نہ کمر سے رسہ باندھنے کی ضرورت ہوگی جیسے کھجوریں اتارنے کے لیے باندھنا پڑتا ہے۔ بلکہ جب خواہش ہوگی مطلوبہ پھل خود بخود جھک کر منہ کے قریب آجائے گا۔ تاکہ وہ اس کو آسانی سے لے لے۔ اس کے بعد اپنی جگہ واپس چلا جائے گا۔ جنت میں کوئی تکلیف نہیں ہوگی : جنتیوں سے کہا جائے گا خوش گوار سے کھائو پیو ، جتنا چاہے کھائو ، یہاں نہ بدہضمی ہوگی ، نہ مروڑ لگیں گے۔ نہ کوئی پیٹ میں فضلہ پیدا ہوگا۔ فرمایا بہت والے جو چیز بھی کھائیں گے ایک خوشبودار ڈکار کے ساتھ سب کچھ ہضم ہوجائیگا۔ انہیں بول وبراز کی حاجت بھی نہیں ہوگی۔ وہ پاک جگہ ہوگی ، وہاں کوئی گندگی نہیں ہوگی ، نہ رینٹ ہوگا ، نہ بلغم والی تھوک ہوگی نہ کوئی پیٹ میں تکلیف پیدا ہوگی۔ بلکہ ایک خوشبودار جثاء یعنی ڈکار کے ساتھ ہر چیز ہضم ہوجائے گی۔ جزائے عمل : اور یہ ساری نعمتیں اس وجہ سے ہیں جو تم نے بھیجا ہے گذرے ہوئے بافراغت دنوں میں یعنی دنیا میں عقیدہ درست کیا ، نیک اعمال کئے یہ ان اعمال کا صلہ ہے جو تم نے دنیا میں اختیار کئے اور اپنے ذخیرہ آخرت آگے بھیجا ، یہ سلوک تمہارے ساتھ اس وجہ سے کیا جا رہا ہے۔
Top