Tafseer-e-Haqqani - Al-A'raaf : 171
وَ اِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَاَنَّهٗ ظُلَّةٌ وَّ ظَنُّوْۤا اَنَّهٗ وَاقِعٌۢ بِهِمْ١ۚ خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّ اذْكُرُوْا مَا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۠   ۧ
وَاِذْ : اور جب نَتَقْنَا : اٹھایا ہم نے الْجَبَلَ : پہاڑ فَوْقَهُمْ : ان کے اوپر كَاَنَّهٗ : گویا کہ وہ ظُلَّةٌ : سائبان وَّظَنُّوْٓا : اور انہوں نے گمان کیا اَنَّهٗ : کہ وہ وَاقِعٌ : گرنے والا بِهِمْ : ان پر خُذُوْا : تم پکڑو مَآ : جو اٰتَيْنٰكُمْ : دیا ہم نے تمہیں بِقُوَّةٍ : مضبوطی سے وَّاذْكُرُوْا : اور یاد کرو مَا فِيْهِ : جو اس میں لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار بن جاؤ
اور جبکہ ہم نے بنی اسرائیل پر سائبان کی طرح پہاڑ اٹھایا اور انہیں گمان ہوا کہ وہ ان پر آہی پڑا (تو ان سے کہا گیا) جو کچھ ہم نے 2 ؎ تم کو دیا اس کو مضبوطی سے لو اور جو اس میں ہے اس کو یاد کرو تاکہ تم پرہیزگار ہوجائو
ترکیب : الجبل مفعول ہے نتقنا بمعنی رفعنا کا اور فوقہم اس کا ظرف ہے وظنوا جملہ معترضہ یا معطوف ہے نتقنا پر یا حال انہ جملہ قائم مقام دو مفعولوں کے من ظہورھم بدل ہے بنی آدم سے بدل الاشتمال باعادۃ الجار ذریتہم اخذ کا مفعول الست بربکم بیان ہے اشہدھم کا ان تقولوا مفعول لہ ہے اشہد کا ای مخافۃ ان تقولوا اور اسی طرح او تقولہ جملہ محل تعلیل میں ہے۔ تفسیر : اس جملہ معترضہ کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عہد کا یہ واقعہ جو کوہ سینا کے پاس گذرا تھا۔ یہ بات بتلانے کے لئے بیان کرتا ہے کہ بنی اسرائیل سے ان کے سر پر پہاڑ اٹھا کر عہد لیا گیا تھا۔ اس پر بھی وہ اس عہد کے پابند نہ رہے۔ یہ قصہ بڑی تفصیل کے ساتھ تاریخ بنی اسرائیل میں تفسیر سورة بقرہ کے ذیل میں بیان ہوچکا اعادہ کی ضرورت نہیں۔ واذاخذربک من بنی آدم الخ چونکہ بنی اسرائیل سے عہد لینے کا ذکر آیا تھا اس لئے مناسب ہوا کہ بلاخصوصیت بنی اسرائیل اپنے اس عہد کو بھی یاد دلائے جو اس نے تمام بنی آدم سے لیا ہے تاکہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ عہد الٰہی کی پابندی صرف بنی اسرائیل پر ہے۔ 2 ؎ یعنی توریت اور اس کے احکام۔ 12 منہ
Top