Tafheem-ul-Quran - Al-A'raaf : 171
وَ اِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَاَنَّهٗ ظُلَّةٌ وَّ ظَنُّوْۤا اَنَّهٗ وَاقِعٌۢ بِهِمْ١ۚ خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّ اذْكُرُوْا مَا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۠   ۧ
وَاِذْ : اور جب نَتَقْنَا : اٹھایا ہم نے الْجَبَلَ : پہاڑ فَوْقَهُمْ : ان کے اوپر كَاَنَّهٗ : گویا کہ وہ ظُلَّةٌ : سائبان وَّظَنُّوْٓا : اور انہوں نے گمان کیا اَنَّهٗ : کہ وہ وَاقِعٌ : گرنے والا بِهِمْ : ان پر خُذُوْا : تم پکڑو مَآ : جو اٰتَيْنٰكُمْ : دیا ہم نے تمہیں بِقُوَّةٍ : مضبوطی سے وَّاذْكُرُوْا : اور یاد کرو مَا فِيْهِ : جو اس میں لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار بن جاؤ
انہیں وہ وقت بھی کچھ یاد ہے جبکہ ہم نے پہاڑ کو ہلا کر اُن پر اس طرح چھا دیا تھا کہ گویا وہ چھتری ہےاور یہ گمان کر رہے تھے کہ وہ ان پر آ پڑے گا اور اُس وقت ہم نے اُن سے کہا تھا کہ جو کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی کے ساتھ تھامو اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اسے یاد رکھو،توقع ہے کہ تم غلط روی سے بچے رہو گے۔ 132
سورة الْاَعْرَاف 132 اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جو موسیٰ ؑ کو شہادت نامہ کی سنگین لوحیں عطا کیے جانے کے موقع پر کوہ سینا کے دامن میں پیش آیا تھا۔ بائیبل میں اس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ”اور موسیٰ لوگوں کو خیمہ گاہ سے باہر لایا کہ خدا سے ملائے اور وہ پہاڑ کے نیچے آ کھڑے ہوئے اور کوہ سینا اوپر سے نیچے تک دھوئیں سے بھر گیا کیونکہ خداوند شعلہ میں ہو کر اس پر اترا اور دھواں تنور کے دھوئیں کی طرح اوپر کو اٹھ رہا تھا اور وہ سارا پہاڑ زور سے ہل رہا تھا“ (خروج 19 17۔ 18) اس طرح اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے کتاب کی پابندی کا عہد لیا اور عہد لیتے ہوئے خارج میں ان پر ایسا ماحول طاری کردیا جس سے انہیں خدا کے جلال اور اس کی عظمت و برتری اور اس کے عہد کی اہمیت کا پورا پورا احساس ہو اور وہ اس شہنشاہ کائنات کے ساتھ میثاق استوار کرنے کو کوئی معمولی سی بات نہ سمجھیں۔ اس سے یہ گمان نہ کرنا چاہیے کہ وہ خدا کے ساتھ میثاق باندھنے پر آمادہ نہ تھے اور انہیں زبردستی خوف زدہ کر کے اس پر آمادہ کیا گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ سب کے سب اہل ایمان تھے اور دامن کوہ میں میثاق باندھنے ہی کے لیے گئے تھے، مگر اللہ تعالیٰ نے معمولی طور پر ان سے عہد و اقرار لینے کے بجائے مناسب جانا کہ اس عہد و اقرار کی اہمیت ان کو اچھی طرح محسوس کرادی جائے تاکہ اقرار کرتے وقت انہیں یہ احساس رہے کہ وہ کس قادر مطلق ہستی سے اقرار کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ بد عہدی کرنے کا انجام کیا کچھ ہوسکتا ہے۔ یہاں پہنچ کر بنی اسرائیل سے خطاب ختم ہوجاتا ہے اور بعد کے رکوعوں میں تقریر کا رخ عام انسانوں کی طرف پھرتا ہے جن میں خصوصیت کے ساتھ روئے سخن ان لوگوں کی جانب ہے جو براہ راست نبی ﷺ کے مخاطب تھے۔
Top