Tafseer-e-Jalalain - Al-Anbiyaa : 42
قُلْ مَنْ یَّكْلَؤُكُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّهَارِ مِنَ الرَّحْمٰنِ١ؕ بَلْ هُمْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِمْ مُّعْرِضُوْنَ
قُلْ : فرما دیں مَنْ : کون يَّكْلَؤُكُمْ : تمہاری نگہبانی کرتا ہے بِالَّيْلِ : رات میں وَالنَّهَارِ : اور دن مِنَ الرَّحْمٰنِ : رحمن سے بَلْ هُمْ : بلکہ وہ عَنْ ذِكْرِ : یاد سے رَبِّهِمْ : اپنا رب مُّعْرِضُوْنَ : روگردانی کرتے ہیں
کہو کہ رات اور دن میں خدا سے تمہاری کون حفاظت کرسکتا ہے ؟ بات یہ ہے کہ یہ اپنے پروردگار کی یاد سے منہ پھیرے ہوئے ہیں
آیت نمبر 42 تا 50 ترجمہ : اے محمد ﷺ ان تمسخر کرنے والوں سے کہئے رحمان کے عذاب سے رات اور دن کون ہے جو تمہاری نگرانی حفاظت کرتا ہے اگر تم پر عذاب نازل ہونے لگے (اللہ کے سوا) ایسا کوئی نہیں کرتا، اور یہ مخاطبین عذاب الٰہی سے نہیں ڈرتے اس عذاب کے منکر ہونے کی وجہ سے بلکہ یہ لوگ اپنے رب کے ذکر یعنی قرآنی سے اعراض کرتے ہیں یعنی اس میں غور و فکر نہیں کرتے اَمْ اس میں ہمزہ معنی انکاری کے لئے ہے کیا ان کے پاس ہمارے علاوہ ایسے معبود ہیں جو ان کو (ان کی تکلیف) عذاب سے بچا سکیں ؟ یعنی کیا ان کے پاس ہمارے علاوہ کوئی ایسی ذات ہے جو ان کو عذاب سے بچا سکے کوئی نہیں وہ معبود ان (باطلہ) خود اپنی حفاظت نہیں کرسکتے تو وہ ان کی کیا حفاظت کرسکیں گے اور نہ وہ کفار ہمارے عذاب سے بچائے جائیں گے صَحِبَک اللہ بولا جاتا ہے یعنی اللہ تیری حفاظت کرے اور تجھ کو (آفات) سے بچائے ہم نے ان کو اور ان کے اباء و اجداد کو ان پر اپنی نعمتوں کے ذریعہ خوب سازوسامان عطا کئے یہاں تک کہ (اسی حالت) میں ان پر زمانہ دراز گزر گیا چناچہ اسی وجہ سے وہ دھوکے میں پڑگئے کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم ان کی زمین کا قصد کر رہے ہیں یعنی (ان کی) زمین کو چاروں طرف سے گھٹاتے چلے جا رہے ہیں آپ ﷺ کو غلبہ عطا کرکے سو کیا یہ لوگ غالب آئیں گے نہیں بلکہ آپ ﷺ اور ان کے اصحاب (ہی غالب رہیں گے) آپ ان سے کہہ دیجئے میں تو تم کو اللہ کی جانب سے نہ کہ اپنی جانب سے وحی کے ذریعہ آگاہ کرتا ہوں اور یہ بہرے بات نہیں سنتے جب ان کو آگاہ کیا جاتا ہے دونوں ہمزوں کو محقق کرکے اور ثانی ہمزہ کی تسہیل کے ساتھ ہمزہ اوری کے درمیان یعنی بہرے کے مانند سنہ ہوئی تنبیہ پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے (گویا کہ حقیقت میں یہ بہرے ہیں) اگر ان کو تیرے رب کے عذاب کا ایک ہلکا سا جھونکا لگ جائے تو پکار اٹھیں ہائے ہماری کمبختی یعنی ہماری ہلاکت واقعی ہم شرک اور محمد ﷺ کی تکذیب کی وجہ سے خطا وار تھے اور ہم قیامت کے دن درست میزان عدل قائم کریں گے تو کسی پر اصلا ظلم نہ کیا جائے گا نیکیوں کو کم کرکے یا گناہوں میں اضافہ کرکے اور اگر عمل رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو تو بھی ہم اس کو یعنی موزون کو حاضر کردیں گے اور ہم ہر چیز کا حساب لینے والے کافی ہیں اور یہ بات بالکل سچ ہے کہ ہم نے موسیٰ اور ہارون کو تورات فرقان یعنی تورات حق و باطل اور حلال و حرام کے درمیان فرق کرنے والی اور ان پرہیز گاروں کے لئے نصیحت کی کتاب عطا فرمائی جو اپنے رب سے بن دیکھے ڈرتے ہیں اور وہ لوگ قیامت یعنی اس کی ہولناکیوں سے بھی ڈرتے ہیں اور یہ قرآن بھی کثیر الفائدہ نصیحت ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے پھر بھی تم اس کے منکر ہو ؟ اس میں استفہام توبیخ کیلئے ہے۔ تحقیق، ترکیب تفسیر فوائد یَکْلَئُکُمْ (ف، س) مضارع واحد مذکر غائب مصدر کَلْأٌ کِلَأ کِلَاءَۃً حفاظت کرنا آلِھَۃٌ تَمْنَعُھُمْ مِنْ دُوْنِنَا مِنْ دونِنا، آلِھۃ کی صفت ہے کلام میں تقدیم و تاخیر ہے، تقدیر عبارت یہ ہے آلِھَۃٌ مِنْ دُوْنِنَا تَمْنَعُھُمْ ۔ قولہ : مِمّا یَسُوھم ان چیزوں سے جو ان کو تکلیف پہنچائیں لایُصْحَبُوْنَ (س) جمع مذکر غائب منفی مجہول، ان کا ساتھ نہیں دیا جائے گا، وہ بچائے نہیں جائیں گے۔ قولہ : الموازِیْنَ الق، سطَ موازین کو جمع، بیان عظمت کے لئے لائے ہیں ورنہ میزان ایک ہی ہوگی یا مایوزَنُ کے اعتبار سے جمع لائی گئی ہے یعنی چونکہ اعمال کثیرہ اور اعمال کے انواع کثیرہ تولے جائیں گے اس لئے جمع لایا گیا ہے قسط کو مفرد لایا گیا ہے حالانکہ موازین کی صفت ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ القسط مصدر ہے اور مصدر کا اطلاق واحد اور جمع سب پر یکساں ہوتا ہے، مفسر علام نے لیوم القیامۃ کی تفسیر فیہ سے کرکے اشارہ کردیا کہ لام بمعنی فی ہے۔ قولہ : شیئاً یا مفعول ثانی ہے یا تظلم کے مفعول مطلق کی صفت ہے ای لاتظلم ظلمًا شیئًا۔ قولہ : واِن کان کے بعد العملُ کو مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ کان ناقصہ ہے اس کے اندر ضمیر ہے جو کان کا اسم ہے اور وہ عمل ہے اور مثقالَ اس کی خبر ہے اور نافع نے مثقالُ رفع کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں کان تامہ ہوگا۔ قولہ : بالغیبِ یخشَون کی ضمیر سے حال ہے ای یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ غائبین عن الناس یعنی جب وہ تنہائی میں ہوتے ہیں تو اس وقت بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں مِنَ الساعۃ کے بعد اَھْوَالِھَا مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ مضاف محذوف ہے اور قیامت سے ڈرنے کا مطلب اس کی ہولناکی سے ڈرنا ہے۔ تفسیر و تشریح قل من یکلئکم الخ یعنی تمہارے جو کرتوت ہیں وہ تو ایسے ہیں کہ دن رات کی کسی بھی گھڑی میں تم پر عذاب آسکتا ہے، اس عذاب سے رات دن تمہاری کون حفاظت کرتا ہے ؟ کیا اللہ کے سوا بھی کوئی اور ہے جو عذاب الٰہی سے تمہاری حفاظت کرسکے ؟ وَلاَ ھُمْ مِنّا یُصْحَبُوْنَ کے معنی ہیں ولاھم یُجَارُوْنَ من عذَابِنَا نہ وہ خود ہی ہمارے عذاب سے محفوظ ہیں، یعنی وہ خود اپنی مدد پر اور عذاب الٰہی سے بچنے پر قادر نہیں ہیں، پھر ان کی طرف سے ان کی مدد کیا ہوسکتی ہے اور وہ انہیں عذاب سے کس طرح بچا سکتے ہیں۔ بل متعناھم الخ یعنی ان کی کلاءت اور حفاظت اور بتوں کا عجز اور بیچارگی ایسی چیز نہیں کہ جس کو یہ لوگ سمجھ نہ سکیں اصل بات یہ ہے کہ پشتہا پشت سے یہ لوگ بےفکری کی زندگی گزار رہے ہیں کوئی جھٹکا عذاب الٰہی کا نہیں لگا جس کی وجہ سے مغرور اور غفلت کے نشہ میں چور ہو کر حق تعالیٰ کے پیغام اور پیغمبروں کی نصیحت قبول کرنے سے منہ موڑ لیا ہے افَلاَ یَرَوْنَ یعنی عرب میں اسلام پھیلنے لگا ہے اور کفر گھٹنے لگا ہے آہستہ آہستہ وہاں کی زمین کافروں پر تنگ ہوتی جا رہی ہے ان کی حکومتیں اور سرداریاں ٹوٹتی جا رہی ہیں، کیا ایسے کھلے ہوئے آثار و قرائن دیکھ کر بھی انہیں اپنا انجام نظر نہیں آتا، کیا ان مشاہدات کے باوجود اس کے امیدوار ہیں کہ پیغمبر (علیہ السلام) اور مسلمانوں پر غالب ہوں گے، اگر چشم عبرت ہے تو چاہیے کہ عقل سے کام لیں اور قرائن و احوال سے مستقبل کا اندازہ کریں، کیا ان کو معلوم نہیں کہ ان کے گردوپیش کی بستیاں انبیاء کی تکذیب و عداوت کی سزا میں تباہ کی جا چکی ہیں وَلَقَدْ اَھْلَکْنَا مَا حولَکُمْ مِنَ القُریٰ وَصَرَّفْنَا الآیَاتِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ قُلْ اُنْذِرُکُمْ الخ یعنی ہمارا کام وحی الٰہی کے موافق نصیحت سنا دینا اور انجام سے آگاہ کردینا ہے، دل کے بہرے اگر اس پکار کو نہ سنیں تو ہمارا قصور نہیں وہ خود اپنے بہرے پن کا خمیازہ بھگتیں گے وَلَئِنْ مَّسَّتْھُمْ الخ یعنی یہ لوگ جو بہرے بنے ہوئے ہیں صرف اس وقت تک ہے کہ ذرا زور سے کھٹکھٹائے نہ جائیں اگر عذاب الٰہی کی ذرا سئ بھنک ان کے کان میں پڑگئی یا خڈا کے قہر و انتقام کی ادنیٰ سی بھاپ ان کو چھوگئی تو آنکھ کان سب کھل جائیں گے اس وقت بدحواس ہو کر چلائیں گے کہ بیشک ہم بھاری مجرم تھے جو ایسی کمبختی آئی۔ ونضع الموازین القسط الخ یعنی رائی کے دانہ کے برابر بھی کسی کا عمل ہو عدل و انصاف کی ترازو میں تلے گا ادھر ادھر ضائع نہ ہوگا، نہ کسی پر ظلم زیادتی کی جائے گی، رتی رتی کا حساب ہوگا (تنبیہ) موازین میزان کی جمع ہے ہوسکتا ہے کہ بہت سی ترازو ہوں جو مختلف قسم کے اعمال کو تولنے کے لئے الگ الگ قسم کی ہوں جیسا کہ دنیا میں ہر چیز کو تولنے اور ناپنے کی الگ قسم کی ترازو ہوتی ہے، سیال اشیاء کے لئے الگ اور جامد کے لئے الگ پھر سیال میں بھی مختلف چیزوں کے لئے الگ الگ ترازو ہوتی ہیں، یا ایک ہی ترازو ہو مگر مختلف قسم کے اعمال کو تولنے کا کام دے اس وجہ سے جمع کا صیغہ استعمال کیا ہو کفیٰ بِنَا حَاسِبِیْنَ کا مطلب ہے کہ ہمارا حساب آخری اور فیصلہ کن ہوگا جس کے بعد کوئی دوسرا حساب لینے والا نہیں ہوگا۔
Top