Tafseer-e-Jalalain - Aal-i-Imraan : 42
وَ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفٰىكِ عَلٰى نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَتِ : کہا الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتہ (جمع) يٰمَرْيَمُ : اے مریم اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ اصْطَفٰىكِ : چن لیا تجھ کو وَطَهَّرَكِ : اور پاک کیا تجھ کو وَاصْطَفٰىكِ : اور برگزیدہ کیا تجھ کو عَلٰي : پر نِسَآءِ : عورتیں الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان
اور جب فرشتوں نے (مریم سے) کہا کہ مریم خدا نے تم کو برگزیدہ کیا ہے اور پاک بنایا ہے اور جہان کی عورتوں میں منتخب کیا ہے
آیت نمبر 42 تا 54 ترجمہ : اور وہ وقت یاد کرو جب فرشتوں یعنی جبرئیل نے کہا اے مریم بیشک اللہ نے تجھ کو برگزیدہ کیا ہے اور مردوں کے مس کرنے سے تجھے پاک کردیا ہے، اور تجھ کو دنیا جہان کی عورتوں کے مقابلہ میں یعنی اپنے زمانہ کی عورتوں کے مقابلہ میں برگزیدہ کرلیا ہے۔ اے مریم تو اپنے پروردگار کی اطاعت کرتی رہیے اور سجدہ کرتی رہیے۔ اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتی رہیے یعنی نماز پڑھنے والوں کے ساتھ نماز پڑھتی رہیے۔ یہ مذکورہ واقعات (یعنی) زکریا (علیہ السلام) اور مریم (علیہما السلام) کا واقعہ غیب کی خبروں میں سے ہیں یعنی ان خبروں میں سے جو تم سے پردہ غیب میں ہیں ہم آپ کے اوپر اے محمد ﷺ وحی کر رہے ہیں اور جب وہ اپنے قلموں کو قرعہ اندازی کے لیے پانی میں ڈال رہے تھے تاکہ ان پر یہ بات ظاہر ہوجائے کہ مریم کی کون سرپرستی کرے ؟ اور ان کی سرپرستی کے بارے میں جب وہ اختلاف کر رہے تھے تو آپ ان کے پاس موجود نہیں تھے کہ آپ اس واقعہ کو جانتے ہوں جس کی بنا پر آپ اس کی خبر دے رہے ہوں، آپ کو تو علم بذریعہ وحی ہوا ہے۔ اور وہ وقت یاد کرو جب فرشتوں یعنی جبرئیل نے کہا اے مریم اللہ آپ کو خوشخبری دے رہا ہے اپنی طرف سے ایک کلمہ یعنی لڑکے کی کہ اس کا نام (ولقب) مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا بچے کی، مریم کی جانب نسبت کرکے مریم سے خطاب اس بات پر تنبیہ کرنے کے لیے کیا کہ وہ اس کو بغیر باپ کے جنے گی، جب کہ لوگوں کی عادت ان کے آباء کی جانب نسبت کرنے کی ہے، دنیا میں نبوت کی وجہ سے اور آخرت میں شفاعت اور اعلیٰ درجات کی وجہ سے عند اللہ معزز اور مقربین میں سے ہوں گے۔ اور وہ لوگوں سے گہوارہ ہیں یعنی بچپن میں کلام کرنے کی عمر سے پہلے کلام کریں گے اور پختہ عمر میں بھی، اور صالحین میں سے ہوں گے۔ وہ بولیں اے میرے پروردگار میرے لڑکا کس طرح ہوگا درآنحالیکہ مجھے کسی مرد نے نکاح کرکے اور نہ بغیر نکاح کے ہاتھ تک نہیں لگایا ارشاد ہوا بغیر باپ کے تجھ سے لڑکا پیدا ہونے کا معاملہ ایسا ہی ہوگا۔ اللہ جو چاہتا ہے پیدا کردیتا ہے جب کسی شئ کے پیدا کرنے کا ارادہ کرلیتا ہے تو اس کے لیے کن کہتا ہے تو وہ ہوجاتی ہے اور وہ اسے نعلمہ، یعلمہ نون اور یاء کے ساتھ ہے لکھنا سکھائے گا اور حکمت اور تورات اور انجیل سکھائئے گا اور ہم اس کو بچپن اور بالغ ہونے کے بعد بنی اسرائیل کا پیغمبر بنائیں گے۔ چناچہ جبرئیل (علیہ السلام) نے ان کی قمیص کے گریبان میں پھونک ماردی تو وہ حاملہ ہوگئیں۔ اور اس کا قصہ اس طرح ہوا کہ جو سورة مریم میں مذکور ہوا ہے۔ چناچہ جب ان کو بنی اسرائیل کی طرف مبعوث فرمایا۔ تو انہوں نے بنی اسرائیل سے فرمایا میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں (اور کہے گا) میں تمہارے پاس اپنی صداقت پر تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں وہ یہ کہ میں اور ایک قراءت میں بصورت اِنّی، کسرہ کے ساتھ ہے استیناف کے لیے۔ تمہارے لیے مٹی سے پرندوں کے مانند صورت بنا دیتا ہوں یعنی پرندہ جیسی صورت اور کَھَیْئَۃ کا کاف اسم مفعول ہے، پھر اس میں دم کردیتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے اور ایک قراءت میں طائراً ہے، تو ان کے لیے چمگادڑ پیدا کی اس لیے کہ وہ پرندوں میں تخلیق کے اعتبار سے کامل ترین ہے چناچہ وہ اڑتی تھی اور وہ اسے دیکھتے تھے، اور جب وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہوجاتی تھی تو وہ مردہ ہو کر گر جاتی تھی، اور میں اللہ کے حکم سے مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو، ان دونوں مرضوں کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں نے اطباء کو عاجز کردیا تھا اور آپ کی بعثت طب کے زمانہ میں ہوئی چناچہ ایک دن میں ایمان کی شرط کے ساتھ دعاء کے ذریعہ پچاس ہزار کو تندرست کیا اور اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتا ہوں باذن اللہ کو مکرر ذکر کیا ہے آپ میں الوہیت کے وہم کی نفی کرنے کے لیے۔ چناچہ آپ نے اپنے دوست عاذر اور بڑھیا کے بیٹے کو اور عشر وصول کرنے والے کی بیٹی کو زندہ کیا چناچہ یہ لوگ (ایک مدت تک) زندہ رہے اور صاحب اولاد ہوئے۔ اور سام بن نوح کو زندہ کیا (مگر) وہا سی وقت انتقال کرگئے، اور میں تم کو بتادیتا ہوں جو کچھ تم کھاتے ہو اور جو تم چھپا کر رکھتے ہو اپنے گھروں میں۔ ان چیزوں کو کہ جن کو میں نے دیکھا بھی نہیں ہے چناچہ آپ آدمی کو بتا دیتے تھے کہ اس نے کیا کھایا ہے ؟ اور آئندہ کیا کھائے گا ؟ بیشک ان مذکورہ واقعات میں تمہارے لیے نشانیاں ہیں اگر تم ایمان رکھتے ہو اور میں تمہارے پاس اپنے سے پہلی (کتاب) تورات اور انجیل کی تصدیق کرنے والا ہو کر آیا ہوں۔ (اور اس لیے آیا ہوں) کہ جو کچھ تمہارے اوپر تورات میں حرام کردیا گیا تھا اس میں سے تم پر کچھ حلال کر دوں چناچہ ان کے لیے مچھلی اور وہ پرندہ کہ جس کے خارنہ ہو حلال کردیا۔ اور کہا گیا ہے کہ سب کو حلال کردیا گیا (اس صورت میں) بعض بمعنی کل ہوگا اور میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں اس کو تاکید کے لیے مکرر لایا گیا ہے یا اس لیے کہ اس پر (فاتقوا اللہ واطیعون) کی بنا ہو سکے۔ لہٰذا اللہ سے ڈرتے رہو اور جس کا میں تم کو حکم دوں اس میں میری اطاعت کرو، اور وہ اللہ کی توحید اور اس کی اطاعت ہے، بلاشبہ اللہ میرا بھی رب ہے، بس اس کی عبادت کرو، یہی ہے وہ سیدھی رہ ہے جس کا میں تم کو حکم کرتا ہوں مگر انہوں نے (عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام) کی تکذیب کی اور ان پر ایمان نہ لائے۔ چناچہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی طرف سے انکار کو محسوس کیا اور انہوں نے ان کے قتل کا ارادہ کرلیا۔ تو آپ نے فرمایا اللہ کے لیے میرا کون مددگار ہوگا ؟ حال یہ کہ میں اللہ کی طرف جا رہا ہوں تاکہ میں اس کے دین کی مدد کروں تو حواریوں نے کہا ہم ہیں اللہ کی مددگار یعنی اس کے دین کے مددگار۔ اور وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے منتخب کردہ لوگ تھے، اور آپ پر سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے تھے۔ اور وہ بارہ آدمی تھے، (حواریوں) حَوْرٌ سے مشتق ہے اس کے معنیٰ خالص سفیدی کے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ وہ دھوبی تھے جو کہ کپڑوں کو سفید (صاف) کرتے تھے۔ ہم اللہ کی تصدیق کرتے ہیں اور اے عیسیٰ تم گواہ رہنا کہ ہم فرمانبردار ہیں اے ہمارے پروردگار ہم ایمان لائے انجیل پر جو تو نے نازل فرمائی ہے اور ہم نے رسول کی اتباع کی جو کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں تو ہم کو بھی اپنی توحید کے گواہوں کے ساتھ اور اپنے رسول کی اتباع کرنے والوں کے ساتھ لکھ لے اللہ تعالیٰ نے فرمایا بنی اسرائیل کے کافروں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ تدبیر کی جب کہ ان کو ان لوگوں کے حوالہ کردیا جو ان کو اچانک قتل کرنا چاہتے تھے اور اللہ نے بھی ان کے ساتھ خفیہ تدبیر کی اسی طریقہ پر کہ اس شخص پر جو آپ کو قتل کرنا چاہتا تھا آپ کی شبیہ ڈال دی چناچہ لوگوں نے اسی کو قتل کردیا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمانوں پر اٹھا لیا گیا۔ اور اللہ خفیہ تدبیر کرنے والوں میں سب سے بہتر ہیں۔ یعنی خفیہ تدبیر کو ان سے زیادہ جاننے والا ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : وَاِذْ قَالَتِ الْمَلآئکَۃُ ، یہ سابقہ قَالَتْ پر عطف قصہ علی القصہ ہے قصہ بنت کا قصہ اُم پر عطف کیا گیا ہے مناسبت ظاہر ہے، اور بعض حضرات نے اذکر فعل مقدر کی وجہ سے منصوب کہا ہے مفسر علام کی بھی یہی رائے ہے۔ قولہ : ای جبرئیل، اس میں ارشاد ہے کہ الملائکۃ اسم جنس ہے مراد ادنی فرد یعنی واحد ہے، یا الملائکہ کو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی تعظیم کے طور پر جمع لایا گیا ہے۔ قولہ : اِصْطفیٰ اَصْطفاءٌ سے ماضی واحد مذکر غائب، اس نے چن لیا، اس نے برگزیدہ بنایا، اس نے منتخب کیا۔ قولہ : ای وَلَدٍ یہ کلمۃٍ کی تفسیر ہے۔ قولہ : اَلمَسِیْحُ عیسیٰ ، عیسیٰ المسیح سے بدل ہے، آپ کا لقب مسیح ہے اور مسیح عبرانی زبان میں مبارک کو بھی کہتے ہیں مسیح کو مسیح یا تو اسلیے کہتے ہیں کہ آپ سفر و سیاحت زیادہ کرتے تھے یا اس لیے کہ آپ جس مریض کو مسح کردیتے تھے وہ تبدرست ہوجاتا تھا۔ قولہ : عیسیٰ یہ ایسوع سے ماخوذ ہے اور کہا گیا ہے کہ العیس سے ماخوذ ہے اس سفیدی کو کہتے ہیں جس میں سرخی غالب ہو، چونکہ آپ گندم گوں تھے اس لیے آپ کو عیسیٰ کہا گیا۔ قولہ : ابن مریم، یہ مبتداء محذوف، ھُو، کی خبر ہے۔ قولہ : وَجِیْھًا یہ کلمۃ، سے حال ہے اگرچہ کلمۃٌ نکرہ ہے مگر موصوفہ ہے ای کلمۃٍ کائنۃٍ منہ۔ قولہ : ای طفلاً الخ اس میں اشارہ ہے کہ المہد سے مراد محض گہوارہ ہی نہیں بلکہ حالت طفولیت ہے خواہ کلام کرتے وقت گہوارہ میں ہوں یا ماں کی گود میں یا بستر پر۔ قولہ : ومن الصالحین اس کا عطف وَجِیْھًا پر ہے۔ قولہ : فھو یکون اس میں اشارہ ہے کہ یکون، ھُوَ مبتداء محذوف کی خبر ہے۔ قولہ : الخط الکتٰبَ کی تفسیر الحظ سے کرنے کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : التوارۃ اور انجیل کا عطف الکتاب پر صحیح نہیں ہے اس لیے کہ کتاب میں انجیل و تورات دونوں شامل ہیں لہٰذا یہ عطف الشئ علی نفسہٖ سے ہوگا۔ جواب : الکتاب سے مراد الکتابۃ ہے، اسی کی طرف الخط سے اشارہ فرمایا ہے۔ قولہ : ھِیَ اَنّی، ھِیَ محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ أنّی مع اپنے مابعد کے مبتداء محذوف کی خبر ہے۔ نہ کہ أنی قَدْ جئتکم سے بدل ہونے کی وجہ سے منصوب۔ قولہ : الکاف اسم مفعول، اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : فَاَنْفُخُ فِیْہِ ، فِیْہِ کی ضمیر کَھَیْئَۃِ الطیر میں کاف کی طرف راجع ہے اور کاف حرف ہے اور حرف کی طرف ضمیر راجع نہیں ہوسکتی۔ جواب : کاف بمعنی مثل ہے جو کہ اسم مفعول ہے، مماثل ھَیْئَۃ الطیر، لہٰذا اب کوئی اشکال نہیں۔ اللغۃ والبلاغۃ قولہ : الکنایۃُ ، یُلْقُوْنَ اَقْلَامَھُمْ یہ کنایہ ہے قرعہ اندازی سے چند قلم جن سے تورات لکھی جاتی تھی وہ ہیکل میں محفوظ رہتے تھے اور جب قرعہ اندازی کرنی ہوتی تو ہر امیدواران میں سے ایک قلم لے لیتا تھا اور اس کو نشان زدہ کردیتا تھا اور دریا کے کنارے جاکر سب کو دریا میں ڈال دیا جاتا تھا جس کا قلم پانی کے رخ کے خلاف اوپر کی طرف چڑھتا تھا قرعہ اسی کے نام سمجھا جاتا تھا۔ قولہ : الصِیْصِیَۃُ (ما یُتَحَصَّنُ بھا) وہ آلہ جس کے ذریعہ حفاظت کی جائے اسی وجہ سے بیل اور ہرن کے سینگوں اور مرغ کے خار کو بھی کہتے ہیں جسے شوکۃ الدیک کہتے ہیں مرغ کی ایک ساق میں اکثر اور بعض اوقات دونوں میں پنجہ سے اوپر ایک نوکیلا ناخن ہوتا ہے، جسے شوک الدیک کہتے ہیں، اس شوک کے ذریعہ مرغ اپنا دفاع کرتا ہے اور اسی سے حملہ آور بھی ہوتا ہے، قاضی نے صیصیہ، اس مچھلی کو بھی کہا ہے جس کے اوپر فلوس اور اندر کانٹے نہ ہوں۔ قولہ : ذَاھِبًا، ذاھِبًا کو مفرد لا کر اشارہ کردیا کہ متکلم سے حال ہے۔ استعارہ تمثیلیہ : فَلَمَّا اَحَسَّ عِیْسٰی مِنْھُمُُ الُکُفْرَ ، میں استعارہ تمثیلیہ ہے۔ اَحَسَّ سے مراد عَلِمَ وَاَدْرَکَ ہے اس لیے کہ احساس حواس خمسہ ظاہرہ سے مجسم شئ کا ہوتا ہے نہ کہ عقلی شئ کا اور کفر عقلی ہے لہٰذا احَسَّ سے مراد علِمَ ہے۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کا کفر اس قدر واضح اور ظاہر تھا گویا کہ مجسم شئ کے درجہ میں آگیا تھا۔ تفسیر و تشریح وَاِذْ قَالَتِ الْمَلآئِکَۃُ یَامَرْیَمُ (الآیۃ) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا کلمۃ اللہ اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ آپ کی ولادت اعجازی شان کی مظہر اور عام انسانی اصول کے برعکس بغیر باپ کے اللہ کی قدرت خاصہ اور اس کے کلمہ کُنْ سے ہوئی تھی، پہلے اصطفیٰ کا تعلق مریم کے بچپن سے ہے یعنی اللہ نے آپ کو شروع ہی سے نزرگی دے رکھی تھی۔ آپ کی والدہ کی دعاؤں کو سن کر آپ کو خلعت وجود بخشا گیا، اس کے علاوہ ہیکل کی خدمت کا کام لڑکوں کے لیے مخصوص تھا آپ کو لڑکی ہونے کے باوجود اس کا موقع عنایت کیا گیا۔ پھر آپ کو آپ کے حجرے میں بےموسمی پھل جس اعجازی طریقہ پر پہنچائے اس نے زکریا (علیہ السلام) کو متحیر کردیا، یہ سب شواہد آپ کی برگزیدگی ہی کے تو ہیں۔ وَطَھَّرَکِ وَاصْطَفٰکِ عَلٰی نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ ، ٰیہ آیت خصوصیت سے یہود کی رد میں ہے جو گندے الزامات حضرت مریم کو لگائے ہوئے تھے اور آج تک لگاتے چلے آرہے ہیں۔ اس اصطفیٰ کا تعلق بلوغ کے بعد سے ہے مثلاً مواصلت صنفی کے بغیر مَسّ ملکی سے انہیں ماں بنادیا گیا، انجیل میں بھی فضیلت مریم کا ذکر ہے مگر بہت ہلکے الفاظ ہیں۔ اس کنواری کا نام مریم تھا اور فرشتے نے اس کے پاس اندر آکر کہا سلام تجھکو، جس پر فضل ہوا ہے خداوند تیرے ساتھ ہے۔ (لوقا، 28، 27: 1) ۔ حضرت مریم کا یہ شرف و فضل ان کے اپنے زمانہ کے اعتبار سے ہے کیونکہ صحیح احادیث میں حضرت مریم کے ساتھ حضرت خدیجہ ؓ کو بھی خیر نِسَائھا (سب عورتوں سے بہتر کہا گیا ہے) اور بعض عورتوں کو کامل قرار دیا گیا ہے، حضرت مریم، حضرت آسیہ (فرعون کی بیوی) حضرت خدیجہ ؓ اور حضرت عائشہ ؓ ۔ حضرت عائشہ ؓ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر فوقیت حاصل ہے۔ (ابن کثیر) ترمذی کی روایت میں حضرت فاطمہ ؓ کو بھی فضیلت والی عورتوں میں شامل کیا گیا ہے۔ (ابن کثیر)
Top