Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 44
وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰى قَبْرِهٖ١ؕ اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ مَاتُوْا وَ هُمْ فٰسِقُوْنَ
وَلَا تُصَلِّ : اور نہ پڑھنا نماز عَلٰٓي : پر اَحَدٍ : کوئی مِّنْهُمْ : ان سے مَّاتَ : مرگیا اَبَدًا : کبھی وَّلَا تَقُمْ : اور نہ کھڑے ہونا عَلٰي : پر قَبْرِهٖ : اس کی قبر اِنَّهُمْ : بیشک وہ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا بِاللّٰهِ : اللہ سے وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول وَمَاتُوْا : اور وہ مرے وَهُمْ : جبکہ وہ فٰسِقُوْنَ : نافرمان
اور ان میں سے جو کوئی شخص مرجائے آپ اس پر کبھی نماز نہ پڑھیں اور اس کی قبر پر کھڑے نہ ہوں، بیشک ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور وہ اس حال میں مرگئے کہ نافرمان تھے
منافقین کی نماز جنازہ سے ممانعت : 1:۔ بخاری ومسلم وابن ابی حاتم وابن منذر وابو الشیخ وابن مردویہ والبیہقی نے دلائل میں ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ جب عبداللہ بن ابی سلول کی وفات ہوئی تو اس کا بیٹا عبد اللہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور ان سے سوال کیا کہ اپنی قمیص عطاء فرمائیے تاکہ اس میں کفن دیا جائے۔ آپ نے عطا فرما دی پھر اس نے سوال کیا کہ آپ اس پر نماز بھی پڑھایئے۔ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے تو عمر بن خطاب ؓ کھڑے ہوئے اور آپ کا کپڑا پکڑ کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ اس پر نماز پڑھ رہے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے منافقین پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا آپ نے فرمایا میرے رب نے مجھے اختیار دیتے ہوئے فرمایا (آیت) ” استغفرلہم اولا تستغفرلہم ان تستغفرلہم سبعین مرۃ فلن یغفر اللہ لہم “ اور میں عنقریب ستر بار سے زیادہ (استغفار) کرلوں گا۔ عمر ؓ نے فرمایا وہ منافق مگر آپ نے اس پر نماز پڑھ لی پھر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا (آیت) ولا تصل علی احدمنہم مات ابدا ولا تقم علی قبرہ “ پھر آپ نے ان پر نماز پڑھنا چھوڑ دیا۔ 2:۔ طبرانی وابن مردویہ والبیہقی رحمہما اللہ نے دلائل میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عبداللہ بن عبداللہ بن ابی سے اس کے باپ نے کہا اے میرے بیٹے نبی کریم ﷺ کے کپڑوں میں سے میرے لئے ایک کپڑاطلب کرو اور اس میں مجھ کو کفن دو اور آپ ﷺ سے عرض کرنا کہ میری نماز جنازہ پڑھائیں۔ وہ حاضر خدمت ہوا اور کہا یا رسول اللہ ﷺ آپ عبداللہ کے شرف اور اس کی سرداری جانتے ہیں اور وہ آپ کے کپڑوں میں ایک کپڑا طلب کرتا ہے ہم اس میں اس کو کفن دیں گے اور آپ اس پر نماز بھی پڑھائیے۔ عمر ؓ نے فرمایا یا رسول اللہ آپ نے عبداللہ اور اس کے نفاق کو پہچان لیا کیا آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس پر نماز پڑھنے کو منع فرمایا آپ نے فرمایا اور بیٹا (تو منافق نہیں ہے) پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (آیت) ” استغفرلہم اولا تستغفرلہم ان تستغفرلہم سبعین مرۃ فلن یغفر اللہ لہم “ فرمایا میں عنقریب ستر سے زیادہ استغفار کروں گا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت فرمائی (آیت) ” ولا تصل علی احد منہم مات ابدا ولا تقم علی قبرہ “ آپ نے عمر ؓ کو بلا بھیجا اور ان کو اس (حکم) کے بارے میں بتایا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” سوآء علیہم استغفرت لہم امرلم تستغفرہم “۔ 3:۔ ابن منذر (رح) نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ جب عبداللہ بن ابی سلول بیمار ہوا اس مرض میں جس میں وہ مرگیا تو رسول اللہ ﷺ ھنے اس کی عیادت فرمائی جب وہ مرگیا تو آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس کی قبر پر بھی ٹھہرے عمر ؓ نے فرمایا اللہ کی قسم ہم کچھ راتیں ہی ٹھہرے تھے (یہ آیت) ” ولا تصل علی احد منہم مات ابدا ولا تقم علی قبرہ “ 4:۔ ابن ماجہ والبزار وابن جریر وابوالشیخ رحمہم اللہ نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ راس المنافقین مدینہ میں مرگیا اس نے وصیت کی کہ اس پر نبی کریم ﷺ نماز پڑھائی اور ان کی قمیص میں اس کو کفن دیا جائے۔ اس کا بیٹا نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ میرے باپ نے مجھے وصیت کی کہ آپ کی قمیض میں کفن دیا جائے پھر آپ نے اس پر نماز پڑھائی اور اس کو اپنی قمیض بھی پہنائی اور اس کی قبر پر بھی کھڑے ہوئے۔ تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا۔ (آیت) ” ولا تصل علی احد منہم مات ابدا ولا تقم علی قبرہ “ 5:۔ ابویعلی وابن جریر وابن مردویہ رحمہم اللہ نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارادہ فرمایا عبداللہ بن ابی پر نماز پڑھنے کا تو جبرئیل نے آپ کا کپڑا پکڑ کر فرمایا (آیت) ” ولا تصل علی احد منہم مات ابدا ولا تقم علی قبرہ “ 6:۔ ابوالشیخ (رح) نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ عبداللہ بن ابی کے پاس ٹھہرے اور اس کو دعوت دی تو وہ سخت کلامی سے پیش آیا اور نبی کریم ﷺ کی داڑھی مبارک کو پکڑ لیا، ابو ایوب ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کی داڑھی مبارک سے اپنا ہاتھ کو روک لو۔ اللہ کی قسم اگر مجھے اجازت دی جائے تو میں تیرے اندر ضرور ہتھیار سے تیرا کام تمام کردوں گا وہ بیمار ہوا تو اس نے نبی کریم ﷺ کو بلابھیجا اور آپ کی قمیض کو بھی طلب کیا۔ عمر ؓ نے فرمایا اللہ کی قسم وہ اس لائق نہیں کہ آپ اس کے پاس جائیں۔ آپ نے فرمایا کیوں نہیں پھر آپ اس کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا تجھے تیری یہود کے ساتھ دوستی نے ہلاک کیا اس نے کہا میں نے آپ کو اس لئے بلایا ہے تاکہ آپ میری بخشش کے لئے دعا فرمائیں۔ اور میں آپ کو اس لئے نہیں بلایا ا کہ آپ ملاقات کریں اور ڈانٹیں۔ پھر اس کے کہا مجھے اپنی قمیض عطا فرمائیں۔ تاکہ مجھے اس میں کفن دیا جائے آپ نے اس کو عطا فرمائی اور آپ نے اس کے جسم میں تھوکا اور اس کی قبر میں بھی اترے تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت) ” ولا تصل علی احد منہم مات ابدا (الآیہ) صحابہ کرم ؓ اجمعین نے آپ کی قمیض مبارک کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا میری قمیض اس کو فائدہ نہیں دے گی۔ اللہ کی قسم میں امید رکھتا ہوں کہ بنوخزرج میں سے ایک ہزار سے زیادہ مسلمان ہوجائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” ولا تعجبک اموالہم واولادہم “ (الآیہ )
Top