Mazhar-ul-Quran - At-Tawba : 84
وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰى قَبْرِهٖ١ؕ اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ مَاتُوْا وَ هُمْ فٰسِقُوْنَ
وَلَا تُصَلِّ : اور نہ پڑھنا نماز عَلٰٓي : پر اَحَدٍ : کوئی مِّنْهُمْ : ان سے مَّاتَ : مرگیا اَبَدًا : کبھی وَّلَا تَقُمْ : اور نہ کھڑے ہونا عَلٰي : پر قَبْرِهٖ : اس کی قبر اِنَّهُمْ : بیشک وہ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا بِاللّٰهِ : اللہ سے وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول وَمَاتُوْا : اور وہ مرے وَهُمْ : جبکہ وہ فٰسِقُوْنَ : نافرمان
اور (اے محبوب کبریا ﷺ) ان میں سے کوئی مرجائے تو ہرگز ان (کے جنازے) پر نماز نہ پڑھنا اور نہ ان کی قبر پر کھڑے ہونا، بیشک وہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) سے منکر ہوئے اور وہ کفر کی حالت میں مر گئے
منافق کی نماز جنازہ کی (ممانعت) شان نزول : جس کا مطلب یہ ہے کہ عبد اللہ بن ابی سلول منافقوں کا سردار تھا۔ جب وہ مرگیا تو اس کے بیٹے عبد اللہ نے جو مسلمان صالح مخلص صحابی اور کثیر العبادت تھے یہ خواہش کی کہ آنحضرت ﷺ اس کے لئے اپنا کرتہ مبارک عنایت فرماویں اور نماز جنازہ پڑھائیں۔ حضرت عمر ؓ کی رائے اس کے خلاف تھی لیکن اس وقت تک ممانعت نہ ہوئی تھی اور حضور کے معلوم تھا کہ یہ عمل ایک ہزار آدمیوں کے ایمان لانے کا باعث ہوگا۔ اس لئے حضور ﷺ نے اپنا کرتہ مبارک بھی عنایت کیا اور جنازہ میں شرکت بھی کی۔ کرتہ مبارک دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آنحضرت ﷺ کے چچا حضرت عباس ؓ جو بدر میں قید ہوکر آئے تھے تو عبد اللہ بن ابی نے اپنا کرتہ انہیں پہنایا تھا حضور ﷺ کو اس کا بدلہ دینا بھی منظور تھا، اس پر یہ مناہی (ممانعت) کی آیت نازل ہوئی۔ اس کے بعد پھر کبھی آنحضرت ﷺ نے کسی منافق کے جنازہ میں شرکت نہ فرمائی، اور حضور کی وہ مصلحت بھی پوری ہوئی۔ چناچہ جب کفار نے دیکھا کہ ایسا شدید العداوت شخص جب حضور ﷺ کے کرتے سے برکت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے عقیدے میں بھی آپ اللہ کے حبیب اور اس کے سچے رسول ہیں یہ سوچ کر ہزار کافر مسلمان ہوگئے۔ مسئلہ : جس شخص کے مومن یا کافر ہونے میں شبہ ہو اس کے جنازے کی نماز نہ پر ھی جاوے۔
Top