Tafseer-e-Jalalain - Ar-Rahmaan : 46
وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ
وَلِمَنْ خَافَ : اور واسطے اس کے جو ڈرے مَقَامَ رَبِّهٖ : اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے جَنَّتٰنِ : دو باغ ہیں
اور جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اسکے لئے دو باغ ہیں
ترجمہ : اور اس شخص کے لئے یعنی ان میں سے ہر ایک کے لئے یا دونوں کے مجموعہ کے لئے جو اپنے رب کے روبرو حساب کے لئے کھڑے ہونے سے ڈرا اور اس نے اس کی نافرمانی ترک کردی دو باغ ہیں سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے ؟ (دونوں باغ) کثیر شاخوں والے (گھنے) ہوں گے ذواتا، ذوات کا تثنیہ ہے اصل کے مطابق اور اس کا لام یاء ہے، افنان، فنن کی جمع ہے (جیسا کہ) اطلال، طلل کی جمع ہے، سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟ (دونوں باغ) کثیر شاخوں والے (گھنے) ہوں گے ذواتا، ذوات کا تثنیہ ہے اصل کے مطابق اور اس کا لام یاء ہے، افنان، فنن کی جمع ہے (جیسا کہ) اطلال، طلل کی جمع ہے، سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟ ان دونوں باغوں میں دو بہتے ہوئے چشمے ہیں، سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟ ان دونوں باغوں میں دنیاوی ہر قسم کے میووں کی یا ہر اس میوے کی جس سے تفکہ حاصل کیا جائے دو قسمیں ہیں تر اور خشک اور ان دونوں قسم کے میووں سے دنیا میں جو کڑوا ہے، جنت میں وہ شیریں ہوگا، جیسا کہ حنظل (صبر) سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟ جنتی ایسے فرشتوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے جن کے استر دبیز سبز ریشم کے ہوں گے متکلئین حال ہے، اس کا عامل یتنعمون محذوف ہے، استبرق، ریشم کے اس کپڑے کو کہتے ہیں جو دبیز اور کھردرا ہو اور ابرا (اوپر کا کپڑا) سندس یعنی باریک ریشم کا ہوگا اور ان دونوں باغوں کے پھل بالکل قریب قریب ہوں گے جن کو کھڑے ہونے والا اور بیٹھنے والا اور لیٹنے والا (بھی) لے سکتا ہے، سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟ ان باغوں میں اور جس پر وہ باغ مشتمل ہوں گے (مثلاً ) بالا خانے اور محلات وغریہ ایسی عورتیں ہوں گی جو اپنی نظروں کو جن و انس میں سے اپنے شوہروں پر محبوس کئے ہوں گی جو ٹیک لگائے ہوں گے ان سے پہلے ان میں نہ کسی انسان نے تصرف کیا ہوگا اور نہ جن نے یعنی ان سے کسی نے وطی نہ کی ہوگی اور وہ حوروں کے قبیل سے ہوں گی، یا دنیا کی عورتوں کے قبیل سے ہوں گی جن کو (ولادت کے توسط کے بغیر) پیدا کیا گیا ہو گ، سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟ وہ حوریں صفائی میں یاقوت کے اور سفیدی میں موتی کے مانند ہوں گی سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟ بھلا اطاعت کا بدلہ نعمتوں کے احسان کے سوا اور کچھ ہوسکتا ہے ؟ سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے ؟ مذکورہ دونوں باغوں کے علاوہ دو باغ اور بھی ہیں جو درجے میں ان سے کم ہوں گے، اس کے لئے جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے ؟ دونوں باغ گہرے سبز رنگ کے ہوں گے ان کی سبزی کے زیادہ ہونے کی وجہ سے سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے ؟ ان دونوں باغوں میں دو چشمے ہوں گے جو ایسے پانی سے جوش مارتے ہوں گے جو کبھی منقطع نہ ہوگا سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے ؟ اور ان دونوں باغوں میں میوے اور کھجوریں اور نار ہوں گے وہ دونوں (یعنی) کھجور اور انار فواکہ سے ہوں گے اور کہا گیا ہے کہ ان کے علاوہ سے ہوں گے، سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے ؟ اور ان باغوں (کے مکانوں میں) خوبصورت عورتیں ہوں گی سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے ؟ وہ عورتیں گوری گوری رنگت والی اور ان کی آنکھوں کی سیاہی نہایت سیاہ اور سفیدی نہایت سفید ہوگی، وہ در مجوف کے خیموں میں مستور ہوں گی، حال یہ کہ وہ خیمے محلوں پر اضافہ شدہ اوڑھنی کے مشابہ ہوں گے، سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے ؟ ان سے پہلے ان پر نہ تو کسی انسان نے تصرف کیا ہوگا اور نہ کسی جن نے، یعنی ان کے شوہروں سے پہلے سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے ؟ ان کے شوہر سبز مسندوں اور عمدہ گدوں پر تکیہ لگائے ہوں گے اور اس کا اعراب ماقبل میں گذرے ہوئے کے مانند ہے، رفرف، رفرفۃ کی جمع ہے سبز تکیوں کو کہتے ہیں، سو تم اپنے رب کی کون کون سے نعمتوں کا انکار کرو گے ؟ تیرے پروردگار کا نام بابرکت ہے جو عزت اور جلال والا ہے اور لفظ اسم زائد ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : قیامہ یہ مقام ت کی تفسیر ہے، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مقام مصدر ہے۔ قولہ : ذوات علی الاصل ولامھایاء ذات کے تثنیہ میں دو لغت ہیں، ایک اصل کے اعتبار سے دوسرے لفظ کے اعتبار سے، ذات کی اصل ذوبۃ ہے اس میں عین کلمہ وائو ہے اور لام کلمہ یاء ہے، اس کا مفرد اصل میں ذوات ہے، اصل کے مطابق اس کا تثنیہ ذواتان ہے، اضافت کی وجہ سے نون تثنیہ ساقط ہوگیا، جس کی وجہ سے ذواتا رہ گیا اور مفرد کو خلاف اصل ذات ہی استعمال کیا۔ (ترویح الارواح) قولہ : جمع فنن جیسا کہ اطلال جمع طلل اس اضافہ و تشریح سے مفسر علام کا مقصد یہ بتانا ہے کہ افنان فنن کی جمع ہے نہ کہ فن کی جیسا کہ اطلال، طلل کی جمع ہے نہ کہ طل کی۔ قولہ : وجنا الجنتین دان، جنا الجنتین مبتداء اور دان اس کی خبر جنی بمعین مجنی ہے اور دان اصل میں دانو تھا۔ قولہ : فی الجنتین وما اشتملتا الخ یہ فیھن کی تفسیر ہے اس تفسیر کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب دینا ہے۔ سوال : فیھن کا مرجع جنتان ہے جو کہ تثنیہ ہے لہٰذا اس کی طرف لوٹنے والی ضمیر بھی تثنیہ ہونی چاہیے تاکہ ضمیر اور مرجع میں مطابقت ہوجائے مفسر علام نے وما اشتملتا علیہ من العلالی و القصور کا اضافہ کر کے اسی سوال مقدر کا جواب دیا ہے۔ جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ فیھمن کا مرجع فقط جنتان ہی نہیں ہے بلکہ وہ بھی ہیں جن کو جنتاں شامل ہیں مثلاً محلات اور بالا خانے وغیرہ قولہ : من نساء الدنیا المنشآت، المنشآت، نساء الدین کی فت المنشآت لا کر اشارہ کردیا کہ دنیا کی عورتیں بھی اہل جنت کو ملیں گی مگر ان کو نئے سرے سے بنایا جائے گا یعنی دوبارہ ان کی تخلیق ہوگی مگر یہ تخلیق ولادت کے واسطہ سے نہیں ہوگی، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے دست قدرت سے بنائیں گے۔ قولہ : صفاء و بیاضاً جنتی عورتوں کو صفائی میں یا قوت اور سفیدی میں لو لو کے ساتھ تشبیہ دینا مقصود ہے نہ کہ ان کی تمام صفات میں۔ قولہ : ھل ماجزاء الاحسان الا الاحسان، ھل کا استعمال چار طریقہ پر ہوتا ہے بمعنی قد جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول الامر، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول فھل انتم منتھون (4) بمعنی نفی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول فھل علی الرسل الا البلاغ المبین یہاں بھی ھل بمعنی نفی ہے۔ قولہ : مدھامتان یہ الدھمۃ سے ماخوذ ہے اس کے معنی ہیں سیاہی، اس سے فرس ادھم ہے اور سبزی جب شدید ہوجاتی ہے تو وہ سیاہی مائل ہوتی ہے۔ قولہ : وھما منھا یعنی نخل اور رمان یہ دونوں امام ابو یوسف رحمتہ اللہ تعالیٰ اور محمد (رح) تعالیٰ کے نزدیک فواکہ میں شمار ہیں اور امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کے نزدیک فواکہ میں شامل نہیں ہیں، اس لئے کہ عطف مغائرت کو چاہتا ہے۔ قولہ : من در مجوف، مضافۃ الی القصور شبیھا بالخدور یعنی وہ خیمے در مجوف کے ہوں گے یعنی اتنا بڑا موتی ہوگا کہ جس کو اندر سے خالی کر کے خیمہ بنایا جائے گا اور مضافۃ الی القصور کا مطلب ہے وہ خیمے قصر (محل) کے اندر ہوں گے اور بمنزلہ اوڑھنی کے ہوں گے جیسا کہ گھر کے اندر عورتیں ہوتی ہیں اور ان کے سرو پر اوڑھنی بھی ہوتی ہے۔ قولہ : عبقریٰ یہ عبقر کی طرف منسوب ہے عرب کا خیال ہے کہ وہ جنوں کی ایک بستی ہے لہٰذا ہر عجیب و غریب چیز کو اس کی طرف منسوب کرتے ہیں، اور قاموس میں ہے کہ عبقر اس مقام کا نام ہے جہاں جنات بکثرت ہوتے ہیں، اور عبقری اس کو کہتے ہیں جو ہر طرح سے کامل ہو۔ (اعراب القرآن ملخصاً ) تفسیر و تشریح ربطہ :۔ سابقہ آیتوں میں جن و انس پر دنیوی نعمتوں اور مجرمین کی سزائوں کا ذکر تھا، ان آیات میں اخروی نعمتوں اور صالحین کے بہتر صلہ کا ذکر ہے اور اہل جنت کے دو باغوں کا ذکر اور ان میں جو نعمتیں ہیں ان کا بیان ہے اس کے بعد دوسرے باغوں کا اور ان میں مہیا کی ہوئی نعمتوں کا ذکر ہے۔ پہلے دو باغ جن حضرات کے لئے مخصوص ہیں ان کو تو لمن خاف مقام ربہ جنتان سے متعین کر کے بتلا دیا ہے، یعنی ان اعلیٰ قسم کے دو باغوں کے مستحق وہ لوگ ہوں گے جو ہر وقت ہرحال میں اللہ کے سامنے قیامت کے روز کی پیشی اور حساب و کتاب سے ڈرتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ کسی گاہ کے پاس نہیں جاتے اور وہ اس بات کا احساس رکھتے ہیں کہ انہیں دنیا میں غیر بات ہے کہ جس شخص کا یہ عقیدہ ہوگا وہ لامحالہ خواہشات نفس کی بندگی سے بچے گا اور حق و باطل، ظلم و انصاف، حلال و حرام، پاک و ناپاک میں تمیز کرے گا، ظاہر ہے کہ ایسے لوگ سابقین اور مقربین خاص ہی ہوسکتے ہیں۔ دوسرے دو باغوں کے مستحق کون لوگ ہوں گے ؟ اس کی تصریح آیات مذکورہ میں نہیں کی گئی، مگر یہ بتلا دیا گیا ہے کہ یہ دونوں باغ پہلے دو باغوں کی بہ نسبت کم درجے کے ہوں گے ومن دونھما جنتن یعنی پہلے دو باغوں سے یہ دونوں باغ کمتر ہوں گے، اس سے بقرینہ مقام معلوم ہوگیا کہ ان دو باغ کے مستحق عام مومنین ہوں گے، جو مقربین خاص سے درجہ میں کم ہیں، روایات حدیث سے بھی یہی تفسیر راجح معلوم ہوتی ہے، در منشور میں منقول ایک مرفوع حدیث بھی اسی تفسیر کی تائید کرتی ہے کہ آپ ﷺ نے مذکورہ دونوں باغوں کی تفسیر میں فرمایا مقربین کے لئے سونے کے دو باغ ہوں گے اور اصحاب الیمین کے لئے دو باغ چاندی کے ہوں گے، اس سیبھی معلوم ہوتا ہے کہ پہلے دو باغ اعلیٰ درجہ کے اور دوسرے دو باغ اس سے کم درجہ کے ہوں گے۔ اور قرطبی وغیرہ بعض مفسرین نے ” قیام رب “ کی یہ تفسیر بھی کی ہے کہ جو شخص اس بات سے ڈرا کہ ہمارا رب ہمارے ہر قول و فعل خفیہ و علانیہ عمل پر نگران اور قائم ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول افمن ھو قائم علی کل نفس بما کسبت مجاہد اور نخعی نے کہا کہ من خاف مقام ربہ سے وہ شخص مراد ہے جس نے کسی معصیت کا ارادہ کیا ہو اور پھر وہ خوف خدا کی وجہ سے اس معصیت کے ارتکاب سے باز رہا ہو۔ (فتح القدیر شوکانی)
Top