Tafseer-e-Jalalain - Al-A'raaf : 163
وَ سْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ١ۘ اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ اِذْ تَاْتِیْهِمْ حِیْتَانُهُمْ یَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَّ یَوْمَ لَا یَسْبِتُوْنَ١ۙ لَا تَاْتِیْهِمْ١ۛۚ كَذٰلِكَ١ۛۚ نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ
وَسْئَلْهُمْ : اور پوچھو ان سے عَنِ : سے (متلع) الْقَرْيَةِ : بستی الَّتِيْ : وہ جو کہ كَانَتْ : تھی حَاضِرَةَ : سامنے (کنارے کی) الْبَحْرِ : دریا اِذْ : جب يَعْدُوْنَ : حد سے بڑھنے لگے فِي السَّبْتِ : ہفتہ میں اِذْ : جب تَاْتِيْهِمْ : ان کے سامنے آجائیں حِيْتَانُهُمْ : مچھلیاں ان کی يَوْمَ : دن سَبْتِهِمْ : ان کا سبت شُرَّعًا : کھلم کھلا (سامنے) وَّيَوْمَ : اور جس دن لَا يَسْبِتُوْنَ : سبت نہ ہوتا لَا تَاْتِيْهِمْ : وہ نہ آتی تھیں كَذٰلِكَ : اسی طرح نَبْلُوْهُمْ : ہم انہیں آزماتے تھے بِمَا : کیونکہ كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ : وہ نافرمانی کرتے تھے
اور ان سے اس گاؤں کا حال تو پوچھو جو لب دریا واقع تھا۔ جب یہ لوگ ہفتے کے دن کے بارے میں حد سے تجاوز کرنے لگے (یعنی) اس وقت کہ ان ہفتے کے دن مچھلیاں ان کے سامنے پانی کے اوپر آتیں اور جب ہفتہ نہ ہوتا تو نہ آتیں۔ اسی طرح ہم ان لوگوں کو انکی نافرمانیوں کے سبب آزمائش میں ڈالنے لگے۔
آیت نمبر 163 تا 171 ترجمہ : اے محمد ﷺ توبیخاً ان سے اس بستی کا حال پوچھو جو بحر قلزم کے قریب واقع تھی کہ اس کے باشندوں پر کیا گزری ؟ اور وہ بستی اَیْلہ تھی، جبکہ وہ ہفتہ کے روز مچھلی کے شکار کے بارے میں تجاوز کر رہے تھے، حالانکہ اس دن میں شکار نہ کرنے کے مامور تھے، اور مچھلیاں ہفتہ کے دن ابھر ابھر کر پانی کی سطح پر آتی تھیں اِذْ ، یَعْدُوْنَ کا ظرف ہے اور ہفتہ کے علاوہ دونوں میں جن کی وہ ہفتہ کے دن کے مانند تعظیم نہیں کرتے تھے، یعنی ہفتہ کے علاوہ بقیہ دونوں میں اللہ کی طرف سے آزمائش کے طور پر نہیں آتی تھیں، حد سے تجاوز کرنے والوں کی ہم اسی طرح آزمائش کرتے ہیں، اور جب انہوں نے ہفتہ کے روز مچھلی کا شکار کرلیا تو وہ بستی تین فرقوں میں تقسیم ہوگئی، ان میں سے ایک تہائی نے ان کے ساتھ شکار کیا، اور ایک تہائی نے ان کو منع کیا اور ایک تہائی نے نہ شکار کیا اور نہ (شکار کرنے والوں کو) منع کیا، اور جب ان میں سے اس فریق نے جس نے یہ شکار کیا اور نہ (دوسروں) کو منع کیا ان لوگوں سے کہا جنہوں نے منع کیا، تم ان لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو، جن کو اللہ ہلاک کرنے والا ہے، یا ان کو سخت عذاب دینے والا ہے اِذْ ما قبل کے اِذْ پر معطوف ہے، تو انہوں نے جواب دیا ہماری نصیحت عذر خواہی کیلئے ہے جس کو ہم تیرے رب کے حضور پیش کریں گے تاکہ ترک نہی کی کوتاہی ہماری طرف منسوب نہ کی جائے اور تاکہ وہ شکار سے باز آجائیں، آخر کار جب وہ ان نصیحتوں کو بالکل ہی فراموش کر گئے جو ان کو کی گئی تھیں تو وہ باز نہ آئے، تو ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو اب کو برائی سے روکتے تھے اور ہم نے ان لوگوں کو جنہوں نے تعدی کرکے ظلم کیا سخت عذاب میں پکڑ لیا اس لئے کہ وہ حلم عدولی کیا کرتے تھے، پھر جب انہوں نے منہی عنہ کے ترک پر سرکشی دکھائی تو ہم نے ان سے کہا ذلیل بندر ہوجاؤ، تو وہ بندر ہوگئے، اور یہ ماقبل کی تفصیل ہے، (یعنی فَلَمَّا میں فاء تفصیلیہ ہے نہ کہ تعقیبیہ) حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا، میں نہیں جانتا کہ سکوت اختیار کرنے والے فرقہ کے ساتھ کیا معاملہ کیا گیا ؟ اور عکرمہ نے کہا وہ ہلاک نہیں کئے گئے اسلئے کہ انہوں نے تعدی کرنے والوں کے فعل کو ناپسند کیا، اور کہا لِمَ تَعِظلون قوماً الخ، اور حاکم نے ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے توقف کے بعد حاکم کے قول کی طرف رجوع کیا، اور اس کو پسند فرمایا، اور یاد رکھو جبکہ تیرے رب نے اعلان فرمایا کہ وہ ان یہود پر قیامت تک ایسے لوگ مسلط کرتا رہے گا جو ان کو ذلت کے ساتھ اور ٹیکس (جزیہ) عائد کرکے سخت عذاب میں مبتلا کرتے رہیں گے چناچہ ان پر سلیمان (علیہ السلام) کو مسلط فرمایا، اور اس کے بعد بخت نصر کو تو اس نے ان کو قتل کیا اور قید کیا، اور ان پر (جزیہ) ٹیکس عائد کیا، جس کو وہ مجوسیوں کو ادا کرتے تھے یہاں تک کہ ہمارے نبی محمد ﷺ مبعوث کئے گئے تو آپ نے بھی ان پر جزیہ عائد کیا، یقیناً تیرا رب اپنی نافرمانی کرنے والے کو سزا دینے میں تیز دست ہے، اور اہل اطاعت کے لئے غفور و رحیم بھی ہے، اور ہم نے ان کو زمین کے ٹکڑے کرکے مختلف گروہ بنادیا ان میں سے کچھ نیک ہوئے اور کچھ اس کے برعکس کافر اور فاسق ہوئے، اور ہم نے ان کو نعمت و نقمت کے ذریعہ اچھے برے حالات کے ذریعہ آزمائش میں مبتلا کیا تاکہ وہ اپنے فسق سے باز آجائیں، پھر اگلے لوگوں کے بعد ایسے ناخلف جانشین ہوئے جو اپنے آباء سے کتاب (یعنی) تورات کے وارث ہوئے کہ وہا سی دنیائے دنی کے فائدے سمیٹ رہے ہیں، یعنی اس دنیائے دنی کی حقیر چیز خواہ حلال یا حرام (سمیٹ رہے ہیں) اور کہہ دیتے ہیں کہ ہماری حرکتوں کو معاف کردیا جائیگا اور اگر اسی جیسی متاع دنیا دوبارہ سامنے آتی ہے تو پھر اسے لپک کرلے لیتے ہیں اور ویقولون الخ جملہ حالیہ ہے، یعنی حال یہ کہ وہ مغفرت کی امید رکھتے ہیں حالانکہ وہ اپنی حرکتوں کا بار بار اعادہ کرتے ہیں، اور اس پر اصرار کرتے ہیں اور تورات میں اصرار کے ہوتے ہوئے مغفرت کا کوئی وعدہ نہیں ہے، کیا ان سے کتاب کا عہد نہیں لیا جاچکا استفہام تقریری ہے، اضافت بمعنی فی ہے، کہ وہ اللہ کے بارے میں وہی بات کہیں جو حق ہو (اور کیا) انہوں نے کتب میں جو کچھ ہے اس کو نہیں پڑھا دَرَسُوْا کا عطف یوخَذُ پر ہے، تو پھر اصرار کے باوجود اس کی طرف مغفرت کی نسبت کرکے بہتان کیوں باندھتے ہیں، اور دار آخرت تو حرام سے بچنے والوں ہی کے لئے بہتر ہے کیا وہ اس کو سمجھتے نہیں ہیں کہ دار آخرت بہتر ہے، یاء اور تاء کے ساتھ، کہ آخرت کو دنیا پر ترجیح دیں اور ان لوگوں کا جو ان میں سے کتاب کو تھامے ہوئے ہیں (یمسکون) تشدید و تخفیف کے ساتھ ہے، اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں جیسا کہ عبد اللہ بن سلام اور ان کے رفقاء، یقیناً ہم نیک کردار لوگوں کا اجر ضائع نہ کریں گے، یہ جملہ، الذین کی خبر ہے، اور اس میں ضمیر کی جگہ اسم ظاہر کو لایا گیا ہے، ای اجرھم، اور اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے پہاڑ کو جڑ سے اکھاڑ کر ان کے اوپر اس طرح چھا دیا تھا گویا کہ وہ چھتری ہے اور اس بات کا یقین کئے ہوئے تھے کہ وہ ان کے اوپر آپڑے گا، اللہ کے ان سے اس (پہاڑ) کو (ان کے اوپر) ڈال دینے کا وعدہ کرنے کی وجہ سے، اگر وہ تورات کے احکام کو قبول نہ کریں گے، اور وہ ان (احکام) کے گراں (مشکل) ہونے کی وجہ سے (قبول کرنے سے) انکار کرچکے تھے، چناچہ انہوں نے (اس وقت) قبول کرلیا، اور ہم نے ان سے کہا تھا کہ جو کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی کے ساتھ تھا مو، یعنی کوشش اور محنت سے، اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اسے عملی طور پر یاد رکھو توقع ہے کہ تم (غلط روی سے) بچے رہو گے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : وَاسْئَلْھُمْ عَنِ القَرْیَۃِ الَّتی کانَتْ حَاخِرَۃَ البَحْرِم آپ ﷺ کو چونکہ اہل قریہ کے حالات معلوم تھے اس لئے سوال برائے علم کا کوئی مقصد نہیں ہے، اسی لئے اس سوال کو سوال توبیخ و تقریع قرار دیا ہے۔ قولہ : حاضِرَۃَ البَحْرَ ، ای بجوار البحر، اس قریہ کے بارے میں اقوال مختلف ہیں، بعض نے اَیْلَۃ، کہا ہے اور بعض نے طبریہ، اور بعض نے مدین اور بعض نے ایلیاء اور کہا گیا ہے کہ شام میں ساحل بحر کے قریب مراد ہے کہا جاتا ہے، کنتُ بحضرۃ الداری بقربھا۔ (فتح القدیر، شوکانی) ۔ قولہ : شُرَّعًا یہ شارع کی جمع ہے بمعنی ظاہر ہونا۔ قولہ : مَوْعِظتُنَا، یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے سول یہ ہے کہ مَعْذِرَۃً قالوا کا مقولہ ہے اور مقولہ کا جملہ ہونا ضروری ہوتا ہے حالانکہ معذِرۃ مفرد ہے اس کا جواب دیا کہ یہ قالوا کا مقولہ نہیں ہے بلکہ مبتداء محذوف کی خبر ہے، اور وہ موعظتنا ہے، اور یہ معذرۃٌ کی رفع کی قراءت کی صورت میں ہے اور نصب کی صورت میں فعل محذوف کا مفعول لہ ہوگا تقدیر عبارت یہ ہوگی، عظناھم معذِرۃً ای لمعذرۃٍ ۔ قولہ : وھذا تفصیلٌ، یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے سوال، یہ کہ فَلَمَّا عَتَوْا پر فاء داخل ہونے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو پہلے سزا دی مگر انہوں نے پھر بھی سرکشی کی، اس کی سزا میں ان کو بندروں کی شکل میں مسخ کردیا، حالانکہ ان کو صرف یہی مسخ کا ایک عذاب دیا گیا اس کے علاوہ کوئی عذاب نہیں دیا گیا اور فَلَمَا میں فاء تفصیل کی ہے نہ کہ تعقیب کی۔ قولہ : اُمَماً یا تو قطعنا کی ضمیر سے حال ہے یا قطّعنا کا مفعول ثانی ہے۔ قولہ : نَاسٌ منھم خبر مقدم ہے دون ذلک موصوف محذوف کی صفت ہے اور وہ مبتداء ہے، تقدیر عبارت یہ ہے ومنھم ناسٌ قوم دون ذلک۔ قولہ : الجُمْلَۃَ حالٌ وَان یاتیھم عرض مثلہ یأخذوہ، یہ جملہ یقولون کی ضمیر سے حال ہے، اور یقولون بمعنی یعتقدون ہے۔ تفسیر و تشریح واسئلھم عن القریہ، ھُمْ ضمیر سے مراد یہود ہیں، اس میں یہود کو یہ بتانا ہے کہ اس واقعہ کا علم نبی ﷺ کو بھی ہے جو آپ کی صداقت کی دلیل ہے کیونکہ اس کا علم آپ ﷺ کو اللہ کی طرف سے وحی ہی کے ذریعہ ہوسکتا تھا، قریۃ، کی تعیین میں اختلاف ہے جس کو تحقیق و ترکیب کے زیر عنوان بیان کردیا گیا ہے دیکھ لیا جائے۔ ربط آیات : جاری رکوع سے پہلے رکوع میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بقیہ قصہ کا بیان تھا اس رکوع میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت کی غلط کاریوں کا ذکر ہے اور ان کے انجام کا بیان ہے۔ اذ یعدون۔۔۔ شرعا (الآیۃ) محققین کی غالب رائے اس مقام کے بارے میں یہ ہے کہ یہ مقام اَیْلَۃ یا ایلات، یا ایلوت تھا، جہاں اب اسرائیل کی یہودی ریاست نے اسی نام کی ایک بندرگاہ بنائی ہے، اس کے قریب ہی اردن کی مشہور بندرگاہ عقبہ واقع ہے۔ جس واقعہ حیتان کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے اس کے متعلق یہود کی کتب مقدسہ میں کوئی ذکر نہیں ملتا مگر قرآن میں جس انداز سے اس واقعہ کو یہاں اور سورة بقرہ میں بیان کیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے دور میں بنی اسرائیل بالعموم اس واقعہ سے واقف تھے اور یہ حقیقت ہے کہ مدینہ کے یہودیوں نے جو نبی ﷺ کی مخالفت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے قرآن کے اس بیان پر قطعاً کوئی اعتراض نہیں کیا۔ یوم السبت (شنبہ) ہفتہ کے دن کو کہتے ہیں، یہ دن بنی اسرائیل کے نزدیک مقدس قرار دیا گیا تھا، اور آج بھی مقدس مانا جاتا ہے، اس روز کوئی دنیوی کام نہیں کیا جاتا تھا، جانوروں، لونڈیوں، غلاموں غرضیکہ پر قسم کا دنیوی کام موقوف رکھا جاتا تھا، اور جو شخص اس کی خلاف ورزی کرتا تھا وہ واجب القتل سمجھا جاتا تھا، لیکن آگے چل کر بنی اسرائیل نے اس قانون کی خلاف ورزی شروع کردی۔ یوم السبت میں مچھلی پکڑنے کا واقعہ : قرآن کریم کے واقعہ حیتان کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بستی میں تین قسم کے لوگ تھے ایک وہ جو بلا خوف و خطر دھڑلے سے احکام الہیٰ کی خلاف ورزی کر رہے تھے دوسرے وہ جو خود تو خلاف ورزی نہیں کرتے تھے مگر اس خلاف ورزی کو خاموشی سے بیٹھے دیکھ رہے تھے، اور جو لوگ روک ٹوک کر رہے تھے ان سے کہتے تھے کہ ان کم بختوں کو نصیحت کرنے سے کیا فائدہ ؟ تیسرے وہ لوگ جو حدود اللہ کی کھلم کھلا اس خلاف ورزی کو برداشت نہیں کرسکتے تھے وہ اس خیال سے کہ شاید ہماری نصیحت سے یہ لوگ احکام الہیٰ کی خلاف ورزی سے باز آجائیں، اور ہم اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجائیں اس صورت حال میں جب اس بستی پر اللہ کا عذاب آیا تو قرآن مجید کا بیان ہے کہ ان تینوں فریقوں میں سے صرف تیسرا فریق ہی اس عذاب سے محفوظ رہا، بعض مفسرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے گروہ کے متعلق مبتلائے عذاب ہونے کی تصریح کی ہے مگر دوسرے گروہ کے بارے میں سکوت اختیار کیا ہے لہٰذا اسکے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ نجات پانے والوں میں تھے یا مبتلائے عذاب ہونے والوں میں، امام ابن کثیر کا رجحان اسطرف ہے کہ مبتلائے عذاب صرف پہلا گروہ ہوا باقی دونوں گروہ نجات پانے والوں میں تھے۔ واذ تأذن۔۔۔۔ القیامۃ (الآیۃ) تأذَّنَ ، ایذان سے ہے اسی کے معنی خبردار کرنے اور آگاہ کرنے کے ہیں، لَیبعَثنَّ ، میں لام تاکید ہے جو قسم کے معنی کا فائدہ دیتا ہے، یعنی قسم کھا کر نہایت تاکید کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، کہ وہ ان پر قیامت تک ایسے لوگوں کو مسلط کرتا رہے گا جو ان کو سخت عذاب میں مبتلا کرتا رہے گا، چناچہ یہودیوں کی پوری تاریخ اسی ذلت و مسکنت اور غلامی کی تاریخ ہے جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دی ہے، اسرائیل کی موجودہ ریاست قرآن کی بیان کردہ حقیقت کے خلاف نہیں اسلئے کہ وہ قرآن کے بیان کردہ استثناء، وحبل من الناس کا مظہر ہے جو قرآنی بیان کردہ حقیقت کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس کا مؤید ہے۔ اسرائیل کی موجودہ ریاست سے مغالطہ : چند سالوں سے فلسطین کے ایک حصہ پر ان کے قبضہ و اقتدار و اجتماع سے دھوکا نہ ہونا چاہیے اسلئے کہ اجتماع تو ان کا اس جگہ آخری زمانہ میں ہونا چاہیے تھا، کیونکہ صادق و مصدوق رسول کریم ﷺ کی احادیث صحیحہ سے یہ بات ثابت ہے کہ قرب قیامت آخر زمانہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نازل ہوں گے نصاری سب مسلمان ہوجائیں گے اور یہود سے جہاد کرکے ان کو قتل کردیں گے، فلسطین میں بنی اسرائیل کو جمع کیا گیا ہے تاکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کے قتل کرنے میں آسانی ہو۔ قضیہ قدس اور اس کا تاریخی پس منظر : شام اور فلسطین کو بیشمار انبیاء کرام کی سرزمین ہونے کا شرف حاصل ہے فلسطین وہ خطہ قدس ہے کہ جس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حبرون کو اپنی تبلیغی دعوت کا مرکز بنایا اور بیت اللہ (کعبہ) کی تعمیر کے چالیس سال بعد بیت المقدس کی بنیاد ڈالی حضرت اسحاق و یعقوب (علیہ السلام) نے اسی سرزمین میں توحید اور حق و صداقت کی آواز بلند کی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ارض موعود یہی سرزمین تھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی جائے پیدائش ہونے کا شرف اسی سرزمین کو حاصل ہے اسی سرزمین میں واقع مسجد اقصیٰ سے حضرت محمد ﷺ سفر معراج پر تشریف لے گئے ہجرت کے ابتدائی دور میں یہی مسجد مسلمانوں کا قبلہ رہی۔ فلسطین اور مسلمان : اس دور کی طاقتور ترین (سپر پاور) رومی سلطنت تھی جس کا حکمران ہرقل اپنے دور کا سب سے بڑا سپہ سالار سمجھا جاتا تھا، شام و فلسطین اسی کے زیر اقتدار تھے، جنگ یرموک حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں اسی کے دور میں لڑی گئی تھی، یہ جنگ حضرت خالد بن ولید کی سالاری میں لڑی گئی، حضرت خالد بن ولید نے اپنی جنگی صلاحیتوں کا خوب خوب مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے صرف چالیس ہزار مسلمانوں نے ایک لاکھ سے زیادہ رومی فوجوں کو شکست دیکر پسپائی پر مجبور کردیا، جب قیصر روم (ہرقل) کو رومی افواج کی پسپائی کی خبر ملی تو بصد رنج و غم اپنی سلطنت کو الوداع کہہ کر قسطنطنیہ کا رخ کیا، ملک شام کی فتح کے ساتھ ہی بیت المقدس مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا۔ عیسائیوں کی شرط کے مطابق حضرت عمر نے 16 ھ میں بہت المقدس کا وہ مشہور سفر کیا جس میں آپ اور آپ کا غلام باری باری اونٹ پر سفر کرتے تھے اور بیت المقدس میں داخلے کے وقت غلام کے سوار ہونے کی باری تھی۔ فلسطین اور بنو امیہ و بنو عباس : حضرت عمر ؓ کے بعد بنو امیہ اور اس کے بعد بنو عباس کا دور آیا اس دور میں فلسطین مسلمانوں کے قبضے میں رہا، اس کے بعد سلجوقیوں کے دور میں ملک شاہ کے انتقال کے بعد سلجوقیوں کا زوال شروع ہوگیا، جس کی وجہ سے شام اور ایشائے کو چک ایک بار پھر چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہوگیا۔ صلیبی جنگوں کی ابتداء : یہی وہ دور ہے کہ جب صلیبی جنگیں لڑی گئیں، عیسائیوں نے مسلمانوں کی کمزوری اور خانہ جنگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صلیبی جنگوں کا سلسلہ شروع کردیا، ان جنگوں میں یورپ کے علاوہ جرمنی، فرانس، اٹلی کی ایک زبردست فوج بیت المقدس کی بازیابی کیلئے روانہ ہوئی، مسلمانوں کی خانہ جنگی اور کمزوری نے مسلمانوں کو شکست سے دو چار کردیا جس کی وجہ سے پورا ساحلی علاقہ نیز بیت المقدس 542 ھ میں مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا، اس جنگ میں تقریباً ستر ہزار مسلمان شہید ہوئے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی اور بیت المقدس کی بازیابی : 531 ھ تا 541 ھ عماد الدین زنگی نے بیت المقدس کو واپس لینے کی کوشش کی مگر وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے، ان کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے نور الدین زنگی نے اپنے والد عماد الدین زنگی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بیت المقدس کو قبضہ فرنگ سے آزاد کرنے کی کوشش کی مگر وہ بھی مقصد میں کامیابی سے پہلے ہی اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ مصر کی فتح کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی کو وہاں کا حاکم مقرر کیا گیا سلطان بڑی خوبیوں اور صلاحیتوں کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خدا ترس مجاہد بھی تھا، نور الدین زنگی کے انتقال کے بعد ان کی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے پوری سلطنت صلاح الدین ایوبی کے قبضہ میں آئی، سلطان کی زندگی کی سب سے بڑی آرزو فتح بیت المقدس تھی چناچہ حطین کے میدان میں اسلامی اور رومی فوجوں کا مقابلہ ہوا، سلطان کو فتح و کامرانی نصیب ہوئی، ایک طویل زمانہ کے بعد بیت المقدس پھر مسلمانوں کے قبضے میں آگیا جس کی وجہ سے عیسائی دنیا میں کھل بلی مچ گئی۔ پہلی جنگ عظیم اور خلافت عثمانیہ : پہلی جنگ عظیم سے پہلے فلسطین خلافتِ عثمانیہ کا ایک حصہ تھا، جرنل اللنبی کی سپہ سالاری میں انگریزی فوجیں بیت المقدس میں داخل ہوگئیں اور انگریزی سپہ سالار نے اعلان کردیا کہ صلیبی جنگ آج بھی جاری ہے، پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے عربوں سے آزاد مملکت کا وعدہ کیا تھا مگر یہ وعدہ سراسر فریب تھا، اسی زمانہ میں فرانس اور برطانیہ نے خفیہ معاہدہ کے تحت عرب علاقوں کو آپس میں تقسیم کرلیا۔ صیہونی عزائم اور سقوط بیت المقدس : فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کا قیام دنیا کی تاریخ کا ایک نہایت افسوسناک اور تایک باب ہے اور مسلمانوں کیلئے ایک رستا ہواناسور بھی، صیہونی درندوں نے فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ظلم و بربریت کی وہ داستان رقم کی ہے جس کا تصور بھی محال ہے، اور یہ کاروائی گزشتہ نصف صدی سے تاہنوز جاری ہے نومبر 1917 ء میں خلافت عثمانیہ (ترکی) کی شکست کے بعد برطانیہ کے خارجہ امور کے سکریڑی مسٹر بالفور (Mr Bolfore) نے حکومت برطانیہ کئ طرف سے ایک اعلان کیا جو اعلان بالفور کے نام سے مشہور ہے، اس اعلان کے مطابق صیہونی لیڈروں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ فلسطین میں یہودیوں کو ایک علیحدہ وطن دیا جائیگا، کونسل اوف لیگ آف نینز (اس وقت کی اقوام متحدہ) نے 22 جولائی 1920 ء کی فلسطین پر قانونی حکومت کا اختیار برطانیہ کو دیدیا اسی اختیار کے ساتھ یہودیوں نے دنیا کے کونے کونے سے فلسطین کی طرف نقل مکانی شروع کردی 1947 ء میں جرنل اسمبلی میں تقسیم فلسطین کی قرار دار منظور کی گئی 15 مئی 1947 ء میں برطانیہ نے مکمل طور پر دست برداری کا اعلان کردیا اور اسی تاریخ کو اسرائیلی ریاست کا اعلان کردیا گیا، اسی وقت سے اسرائیل اپنی توسیع پسند پالیسی پر گام زن ہے۔ 1948 ء میں جب یہودی ریاست قائم ہوئی تو اس کا رقبہ صرف پانچ ہزار تین سو مربع میل تھا اور اس کی حدود میں پانچ لاکھ یہودی اور پانچ لاکھ چھ ہزار عرب آباد تھے اب یہ رقبہ 33 ہزار مربع میل ہوگیا ہے، 19 اگست 1949 ء میں مسجد اقصیٰ میں آتش زنی کا واقعہ پیش آیا جس میں سلطان صلاح الدین ایوبی کا بنوایا ہوا پیش قیمت منبر بھی جل گیا تھا اس واقعہ نے پوری اسلامی دنیا میں غم و غصہ کی لہر دوڑا دی، آتش زنی کا یہ واقعہ مسجد اقصیٰ کو منہدم کرنے کی صیہونی سازش کا ایک حصہ تھا، اس کے بعد یہود نے جب مسجد اقصیٰ کی دیواروں کے قریب ہیکل سلیمانی کے آثار معلوم کرنے کیلئے کھدائی شروع کی تو ان شبہات کو مزید تقویت پہنچی کہ یہودی مسجد اقصیٰ کو کسی نہ کسی بہانہ سے گرا کر اس کی جگہ ہیکل سلیمانی ازسر نو تعمیر کرنا چاہتے ہیں جس کا نقشہ انجینیروں نے تیار کرلیا ہے۔
Top