Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Al-A'raaf : 163
وَ سْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ١ۘ اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ اِذْ تَاْتِیْهِمْ حِیْتَانُهُمْ یَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَّ یَوْمَ لَا یَسْبِتُوْنَ١ۙ لَا تَاْتِیْهِمْ١ۛۚ كَذٰلِكَ١ۛۚ نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ
وَسْئَلْهُمْ
: اور پوچھو ان سے
عَنِ
: سے (متلع)
الْقَرْيَةِ
: بستی
الَّتِيْ
: وہ جو کہ
كَانَتْ
: تھی
حَاضِرَةَ
: سامنے (کنارے کی)
الْبَحْرِ
: دریا
اِذْ
: جب
يَعْدُوْنَ
: حد سے بڑھنے لگے
فِي السَّبْتِ
: ہفتہ میں
اِذْ
: جب
تَاْتِيْهِمْ
: ان کے سامنے آجائیں
حِيْتَانُهُمْ
: مچھلیاں ان کی
يَوْمَ
: دن
سَبْتِهِمْ
: ان کا سبت
شُرَّعًا
: کھلم کھلا (سامنے)
وَّيَوْمَ
: اور جس دن
لَا يَسْبِتُوْنَ
: سبت نہ ہوتا
لَا تَاْتِيْهِمْ
: وہ نہ آتی تھیں
كَذٰلِكَ
: اسی طرح
نَبْلُوْهُمْ
: ہم انہیں آزماتے تھے
بِمَا
: کیونکہ
كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ
: وہ نافرمانی کرتے تھے
اور ان سے اس گاؤں کا حال تو پوچھو جو لب دریا واقع تھا۔ جب یہ لوگ ہفتے کے دن کے بارے میں حد سے تجاوز کرنے لگے (یعنی) اس وقت کہ ان ہفتے کے دن مچھلیاں ان کے سامنے پانی کے اوپر آتیں اور جب ہفتہ نہ ہوتا تو نہ آتیں۔ اسی طرح ہم ان لوگوں کو انکی نافرمانیوں کے سبب آزمائش میں ڈالنے لگے۔
آیت نمبر 163 تا 171 ترجمہ : اے محمد ﷺ توبیخاً ان سے اس بستی کا حال پوچھو جو بحر قلزم کے قریب واقع تھی کہ اس کے باشندوں پر کیا گزری ؟ اور وہ بستی اَیْلہ تھی، جبکہ وہ ہفتہ کے روز مچھلی کے شکار کے بارے میں تجاوز کر رہے تھے، حالانکہ اس دن میں شکار نہ کرنے کے مامور تھے، اور مچھلیاں ہفتہ کے دن ابھر ابھر کر پانی کی سطح پر آتی تھیں اِذْ ، یَعْدُوْنَ کا ظرف ہے اور ہفتہ کے علاوہ دونوں میں جن کی وہ ہفتہ کے دن کے مانند تعظیم نہیں کرتے تھے، یعنی ہفتہ کے علاوہ بقیہ دونوں میں اللہ کی طرف سے آزمائش کے طور پر نہیں آتی تھیں، حد سے تجاوز کرنے والوں کی ہم اسی طرح آزمائش کرتے ہیں، اور جب انہوں نے ہفتہ کے روز مچھلی کا شکار کرلیا تو وہ بستی تین فرقوں میں تقسیم ہوگئی، ان میں سے ایک تہائی نے ان کے ساتھ شکار کیا، اور ایک تہائی نے ان کو منع کیا اور ایک تہائی نے نہ شکار کیا اور نہ (شکار کرنے والوں کو) منع کیا، اور جب ان میں سے اس فریق نے جس نے یہ شکار کیا اور نہ (دوسروں) کو منع کیا ان لوگوں سے کہا جنہوں نے منع کیا، تم ان لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو، جن کو اللہ ہلاک کرنے والا ہے، یا ان کو سخت عذاب دینے والا ہے اِذْ ما قبل کے اِذْ پر معطوف ہے، تو انہوں نے جواب دیا ہماری نصیحت عذر خواہی کیلئے ہے جس کو ہم تیرے رب کے حضور پیش کریں گے تاکہ ترک نہی کی کوتاہی ہماری طرف منسوب نہ کی جائے اور تاکہ وہ شکار سے باز آجائیں، آخر کار جب وہ ان نصیحتوں کو بالکل ہی فراموش کر گئے جو ان کو کی گئی تھیں تو وہ باز نہ آئے، تو ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو اب کو برائی سے روکتے تھے اور ہم نے ان لوگوں کو جنہوں نے تعدی کرکے ظلم کیا سخت عذاب میں پکڑ لیا اس لئے کہ وہ حلم عدولی کیا کرتے تھے، پھر جب انہوں نے منہی عنہ کے ترک پر سرکشی دکھائی تو ہم نے ان سے کہا ذلیل بندر ہوجاؤ، تو وہ بندر ہوگئے، اور یہ ماقبل کی تفصیل ہے، (یعنی فَلَمَّا میں فاء تفصیلیہ ہے نہ کہ تعقیبیہ) حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا، میں نہیں جانتا کہ سکوت اختیار کرنے والے فرقہ کے ساتھ کیا معاملہ کیا گیا ؟ اور عکرمہ نے کہا وہ ہلاک نہیں کئے گئے اسلئے کہ انہوں نے تعدی کرنے والوں کے فعل کو ناپسند کیا، اور کہا لِمَ تَعِظلون قوماً الخ، اور حاکم نے ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے توقف کے بعد حاکم کے قول کی طرف رجوع کیا، اور اس کو پسند فرمایا، اور یاد رکھو جبکہ تیرے رب نے اعلان فرمایا کہ وہ ان یہود پر قیامت تک ایسے لوگ مسلط کرتا رہے گا جو ان کو ذلت کے ساتھ اور ٹیکس (جزیہ) عائد کرکے سخت عذاب میں مبتلا کرتے رہیں گے چناچہ ان پر سلیمان (علیہ السلام) کو مسلط فرمایا، اور اس کے بعد بخت نصر کو تو اس نے ان کو قتل کیا اور قید کیا، اور ان پر (جزیہ) ٹیکس عائد کیا، جس کو وہ مجوسیوں کو ادا کرتے تھے یہاں تک کہ ہمارے نبی محمد ﷺ مبعوث کئے گئے تو آپ نے بھی ان پر جزیہ عائد کیا، یقیناً تیرا رب اپنی نافرمانی کرنے والے کو سزا دینے میں تیز دست ہے، اور اہل اطاعت کے لئے غفور و رحیم بھی ہے، اور ہم نے ان کو زمین کے ٹکڑے کرکے مختلف گروہ بنادیا ان میں سے کچھ نیک ہوئے اور کچھ اس کے برعکس کافر اور فاسق ہوئے، اور ہم نے ان کو نعمت و نقمت کے ذریعہ اچھے برے حالات کے ذریعہ آزمائش میں مبتلا کیا تاکہ وہ اپنے فسق سے باز آجائیں، پھر اگلے لوگوں کے بعد ایسے ناخلف جانشین ہوئے جو اپنے آباء سے کتاب (یعنی) تورات کے وارث ہوئے کہ وہا سی دنیائے دنی کے فائدے سمیٹ رہے ہیں، یعنی اس دنیائے دنی کی حقیر چیز خواہ حلال یا حرام (سمیٹ رہے ہیں) اور کہہ دیتے ہیں کہ ہماری حرکتوں کو معاف کردیا جائیگا اور اگر اسی جیسی متاع دنیا دوبارہ سامنے آتی ہے تو پھر اسے لپک کرلے لیتے ہیں اور ویقولون الخ جملہ حالیہ ہے، یعنی حال یہ کہ وہ مغفرت کی امید رکھتے ہیں حالانکہ وہ اپنی حرکتوں کا بار بار اعادہ کرتے ہیں، اور اس پر اصرار کرتے ہیں اور تورات میں اصرار کے ہوتے ہوئے مغفرت کا کوئی وعدہ نہیں ہے، کیا ان سے کتاب کا عہد نہیں لیا جاچکا استفہام تقریری ہے، اضافت بمعنی فی ہے، کہ وہ اللہ کے بارے میں وہی بات کہیں جو حق ہو (اور کیا) انہوں نے کتب میں جو کچھ ہے اس کو نہیں پڑھا دَرَسُوْا کا عطف یوخَذُ پر ہے، تو پھر اصرار کے باوجود اس کی طرف مغفرت کی نسبت کرکے بہتان کیوں باندھتے ہیں، اور دار آخرت تو حرام سے بچنے والوں ہی کے لئے بہتر ہے کیا وہ اس کو سمجھتے نہیں ہیں کہ دار آخرت بہتر ہے، یاء اور تاء کے ساتھ، کہ آخرت کو دنیا پر ترجیح دیں اور ان لوگوں کا جو ان میں سے کتاب کو تھامے ہوئے ہیں (یمسکون) تشدید و تخفیف کے ساتھ ہے، اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں جیسا کہ عبد اللہ بن سلام اور ان کے رفقاء، یقیناً ہم نیک کردار لوگوں کا اجر ضائع نہ کریں گے، یہ جملہ، الذین کی خبر ہے، اور اس میں ضمیر کی جگہ اسم ظاہر کو لایا گیا ہے، ای اجرھم، اور اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے پہاڑ کو جڑ سے اکھاڑ کر ان کے اوپر اس طرح چھا دیا تھا گویا کہ وہ چھتری ہے اور اس بات کا یقین کئے ہوئے تھے کہ وہ ان کے اوپر آپڑے گا، اللہ کے ان سے اس (پہاڑ) کو (ان کے اوپر) ڈال دینے کا وعدہ کرنے کی وجہ سے، اگر وہ تورات کے احکام کو قبول نہ کریں گے، اور وہ ان (احکام) کے گراں (مشکل) ہونے کی وجہ سے (قبول کرنے سے) انکار کرچکے تھے، چناچہ انہوں نے (اس وقت) قبول کرلیا، اور ہم نے ان سے کہا تھا کہ جو کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی کے ساتھ تھا مو، یعنی کوشش اور محنت سے، اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اسے عملی طور پر یاد رکھو توقع ہے کہ تم (غلط روی سے) بچے رہو گے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : وَاسْئَلْھُمْ عَنِ القَرْیَۃِ الَّتی کانَتْ حَاخِرَۃَ البَحْرِم آپ ﷺ کو چونکہ اہل قریہ کے حالات معلوم تھے اس لئے سوال برائے علم کا کوئی مقصد نہیں ہے، اسی لئے اس سوال کو سوال توبیخ و تقریع قرار دیا ہے۔ قولہ : حاضِرَۃَ البَحْرَ ، ای بجوار البحر، اس قریہ کے بارے میں اقوال مختلف ہیں، بعض نے اَیْلَۃ، کہا ہے اور بعض نے طبریہ، اور بعض نے مدین اور بعض نے ایلیاء اور کہا گیا ہے کہ شام میں ساحل بحر کے قریب مراد ہے کہا جاتا ہے، کنتُ بحضرۃ الداری بقربھا۔ (فتح القدیر، شوکانی) ۔ قولہ : شُرَّعًا یہ شارع کی جمع ہے بمعنی ظاہر ہونا۔ قولہ : مَوْعِظتُنَا، یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے سول یہ ہے کہ مَعْذِرَۃً قالوا کا مقولہ ہے اور مقولہ کا جملہ ہونا ضروری ہوتا ہے حالانکہ معذِرۃ مفرد ہے اس کا جواب دیا کہ یہ قالوا کا مقولہ نہیں ہے بلکہ مبتداء محذوف کی خبر ہے، اور وہ موعظتنا ہے، اور یہ معذرۃٌ کی رفع کی قراءت کی صورت میں ہے اور نصب کی صورت میں فعل محذوف کا مفعول لہ ہوگا تقدیر عبارت یہ ہوگی، عظناھم معذِرۃً ای لمعذرۃٍ ۔ قولہ : وھذا تفصیلٌ، یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے سوال، یہ کہ فَلَمَّا عَتَوْا پر فاء داخل ہونے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو پہلے سزا دی مگر انہوں نے پھر بھی سرکشی کی، اس کی سزا میں ان کو بندروں کی شکل میں مسخ کردیا، حالانکہ ان کو صرف یہی مسخ کا ایک عذاب دیا گیا اس کے علاوہ کوئی عذاب نہیں دیا گیا اور فَلَمَا میں فاء تفصیل کی ہے نہ کہ تعقیب کی۔ قولہ : اُمَماً یا تو قطعنا کی ضمیر سے حال ہے یا قطّعنا کا مفعول ثانی ہے۔ قولہ : نَاسٌ منھم خبر مقدم ہے دون ذلک موصوف محذوف کی صفت ہے اور وہ مبتداء ہے، تقدیر عبارت یہ ہے ومنھم ناسٌ قوم دون ذلک۔ قولہ : الجُمْلَۃَ حالٌ وَان یاتیھم عرض مثلہ یأخذوہ، یہ جملہ یقولون کی ضمیر سے حال ہے، اور یقولون بمعنی یعتقدون ہے۔ تفسیر و تشریح واسئلھم عن القریہ، ھُمْ ضمیر سے مراد یہود ہیں، اس میں یہود کو یہ بتانا ہے کہ اس واقعہ کا علم نبی ﷺ کو بھی ہے جو آپ کی صداقت کی دلیل ہے کیونکہ اس کا علم آپ ﷺ کو اللہ کی طرف سے وحی ہی کے ذریعہ ہوسکتا تھا، قریۃ، کی تعیین میں اختلاف ہے جس کو تحقیق و ترکیب کے زیر عنوان بیان کردیا گیا ہے دیکھ لیا جائے۔ ربط آیات : جاری رکوع سے پہلے رکوع میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بقیہ قصہ کا بیان تھا اس رکوع میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت کی غلط کاریوں کا ذکر ہے اور ان کے انجام کا بیان ہے۔ اذ یعدون۔۔۔ شرعا (الآیۃ) محققین کی غالب رائے اس مقام کے بارے میں یہ ہے کہ یہ مقام اَیْلَۃ یا ایلات، یا ایلوت تھا، جہاں اب اسرائیل کی یہودی ریاست نے اسی نام کی ایک بندرگاہ بنائی ہے، اس کے قریب ہی اردن کی مشہور بندرگاہ عقبہ واقع ہے۔ جس واقعہ حیتان کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے اس کے متعلق یہود کی کتب مقدسہ میں کوئی ذکر نہیں ملتا مگر قرآن میں جس انداز سے اس واقعہ کو یہاں اور سورة بقرہ میں بیان کیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے دور میں بنی اسرائیل بالعموم اس واقعہ سے واقف تھے اور یہ حقیقت ہے کہ مدینہ کے یہودیوں نے جو نبی ﷺ کی مخالفت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے قرآن کے اس بیان پر قطعاً کوئی اعتراض نہیں کیا۔ یوم السبت (شنبہ) ہفتہ کے دن کو کہتے ہیں، یہ دن بنی اسرائیل کے نزدیک مقدس قرار دیا گیا تھا، اور آج بھی مقدس مانا جاتا ہے، اس روز کوئی دنیوی کام نہیں کیا جاتا تھا، جانوروں، لونڈیوں، غلاموں غرضیکہ پر قسم کا دنیوی کام موقوف رکھا جاتا تھا، اور جو شخص اس کی خلاف ورزی کرتا تھا وہ واجب القتل سمجھا جاتا تھا، لیکن آگے چل کر بنی اسرائیل نے اس قانون کی خلاف ورزی شروع کردی۔ یوم السبت میں مچھلی پکڑنے کا واقعہ : قرآن کریم کے واقعہ حیتان کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بستی میں تین قسم کے لوگ تھے ایک وہ جو بلا خوف و خطر دھڑلے سے احکام الہیٰ کی خلاف ورزی کر رہے تھے دوسرے وہ جو خود تو خلاف ورزی نہیں کرتے تھے مگر اس خلاف ورزی کو خاموشی سے بیٹھے دیکھ رہے تھے، اور جو لوگ روک ٹوک کر رہے تھے ان سے کہتے تھے کہ ان کم بختوں کو نصیحت کرنے سے کیا فائدہ ؟ تیسرے وہ لوگ جو حدود اللہ کی کھلم کھلا اس خلاف ورزی کو برداشت نہیں کرسکتے تھے وہ اس خیال سے کہ شاید ہماری نصیحت سے یہ لوگ احکام الہیٰ کی خلاف ورزی سے باز آجائیں، اور ہم اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجائیں اس صورت حال میں جب اس بستی پر اللہ کا عذاب آیا تو قرآن مجید کا بیان ہے کہ ان تینوں فریقوں میں سے صرف تیسرا فریق ہی اس عذاب سے محفوظ رہا، بعض مفسرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے گروہ کے متعلق مبتلائے عذاب ہونے کی تصریح کی ہے مگر دوسرے گروہ کے بارے میں سکوت اختیار کیا ہے لہٰذا اسکے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ نجات پانے والوں میں تھے یا مبتلائے عذاب ہونے والوں میں، امام ابن کثیر کا رجحان اسطرف ہے کہ مبتلائے عذاب صرف پہلا گروہ ہوا باقی دونوں گروہ نجات پانے والوں میں تھے۔ واذ تأذن۔۔۔۔ القیامۃ (الآیۃ) تأذَّنَ ، ایذان سے ہے اسی کے معنی خبردار کرنے اور آگاہ کرنے کے ہیں، لَیبعَثنَّ ، میں لام تاکید ہے جو قسم کے معنی کا فائدہ دیتا ہے، یعنی قسم کھا کر نہایت تاکید کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، کہ وہ ان پر قیامت تک ایسے لوگوں کو مسلط کرتا رہے گا جو ان کو سخت عذاب میں مبتلا کرتا رہے گا، چناچہ یہودیوں کی پوری تاریخ اسی ذلت و مسکنت اور غلامی کی تاریخ ہے جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دی ہے، اسرائیل کی موجودہ ریاست قرآن کی بیان کردہ حقیقت کے خلاف نہیں اسلئے کہ وہ قرآن کے بیان کردہ استثناء، وحبل من الناس کا مظہر ہے جو قرآنی بیان کردہ حقیقت کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس کا مؤید ہے۔ اسرائیل کی موجودہ ریاست سے مغالطہ : چند سالوں سے فلسطین کے ایک حصہ پر ان کے قبضہ و اقتدار و اجتماع سے دھوکا نہ ہونا چاہیے اسلئے کہ اجتماع تو ان کا اس جگہ آخری زمانہ میں ہونا چاہیے تھا، کیونکہ صادق و مصدوق رسول کریم ﷺ کی احادیث صحیحہ سے یہ بات ثابت ہے کہ قرب قیامت آخر زمانہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نازل ہوں گے نصاری سب مسلمان ہوجائیں گے اور یہود سے جہاد کرکے ان کو قتل کردیں گے، فلسطین میں بنی اسرائیل کو جمع کیا گیا ہے تاکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کے قتل کرنے میں آسانی ہو۔ قضیہ قدس اور اس کا تاریخی پس منظر : شام اور فلسطین کو بیشمار انبیاء کرام کی سرزمین ہونے کا شرف حاصل ہے فلسطین وہ خطہ قدس ہے کہ جس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حبرون کو اپنی تبلیغی دعوت کا مرکز بنایا اور بیت اللہ (کعبہ) کی تعمیر کے چالیس سال بعد بیت المقدس کی بنیاد ڈالی حضرت اسحاق و یعقوب (علیہ السلام) نے اسی سرزمین میں توحید اور حق و صداقت کی آواز بلند کی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ارض موعود یہی سرزمین تھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی جائے پیدائش ہونے کا شرف اسی سرزمین کو حاصل ہے اسی سرزمین میں واقع مسجد اقصیٰ سے حضرت محمد ﷺ سفر معراج پر تشریف لے گئے ہجرت کے ابتدائی دور میں یہی مسجد مسلمانوں کا قبلہ رہی۔ فلسطین اور مسلمان : اس دور کی طاقتور ترین (سپر پاور) رومی سلطنت تھی جس کا حکمران ہرقل اپنے دور کا سب سے بڑا سپہ سالار سمجھا جاتا تھا، شام و فلسطین اسی کے زیر اقتدار تھے، جنگ یرموک حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں اسی کے دور میں لڑی گئی تھی، یہ جنگ حضرت خالد بن ولید کی سالاری میں لڑی گئی، حضرت خالد بن ولید نے اپنی جنگی صلاحیتوں کا خوب خوب مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے صرف چالیس ہزار مسلمانوں نے ایک لاکھ سے زیادہ رومی فوجوں کو شکست دیکر پسپائی پر مجبور کردیا، جب قیصر روم (ہرقل) کو رومی افواج کی پسپائی کی خبر ملی تو بصد رنج و غم اپنی سلطنت کو الوداع کہہ کر قسطنطنیہ کا رخ کیا، ملک شام کی فتح کے ساتھ ہی بیت المقدس مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا۔ عیسائیوں کی شرط کے مطابق حضرت عمر نے 16 ھ میں بہت المقدس کا وہ مشہور سفر کیا جس میں آپ اور آپ کا غلام باری باری اونٹ پر سفر کرتے تھے اور بیت المقدس میں داخلے کے وقت غلام کے سوار ہونے کی باری تھی۔ فلسطین اور بنو امیہ و بنو عباس : حضرت عمر ؓ کے بعد بنو امیہ اور اس کے بعد بنو عباس کا دور آیا اس دور میں فلسطین مسلمانوں کے قبضے میں رہا، اس کے بعد سلجوقیوں کے دور میں ملک شاہ کے انتقال کے بعد سلجوقیوں کا زوال شروع ہوگیا، جس کی وجہ سے شام اور ایشائے کو چک ایک بار پھر چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہوگیا۔ صلیبی جنگوں کی ابتداء : یہی وہ دور ہے کہ جب صلیبی جنگیں لڑی گئیں، عیسائیوں نے مسلمانوں کی کمزوری اور خانہ جنگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صلیبی جنگوں کا سلسلہ شروع کردیا، ان جنگوں میں یورپ کے علاوہ جرمنی، فرانس، اٹلی کی ایک زبردست فوج بیت المقدس کی بازیابی کیلئے روانہ ہوئی، مسلمانوں کی خانہ جنگی اور کمزوری نے مسلمانوں کو شکست سے دو چار کردیا جس کی وجہ سے پورا ساحلی علاقہ نیز بیت المقدس 542 ھ میں مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا، اس جنگ میں تقریباً ستر ہزار مسلمان شہید ہوئے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی اور بیت المقدس کی بازیابی : 531 ھ تا 541 ھ عماد الدین زنگی نے بیت المقدس کو واپس لینے کی کوشش کی مگر وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے، ان کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے نور الدین زنگی نے اپنے والد عماد الدین زنگی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بیت المقدس کو قبضہ فرنگ سے آزاد کرنے کی کوشش کی مگر وہ بھی مقصد میں کامیابی سے پہلے ہی اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ مصر کی فتح کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی کو وہاں کا حاکم مقرر کیا گیا سلطان بڑی خوبیوں اور صلاحیتوں کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خدا ترس مجاہد بھی تھا، نور الدین زنگی کے انتقال کے بعد ان کی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے پوری سلطنت صلاح الدین ایوبی کے قبضہ میں آئی، سلطان کی زندگی کی سب سے بڑی آرزو فتح بیت المقدس تھی چناچہ حطین کے میدان میں اسلامی اور رومی فوجوں کا مقابلہ ہوا، سلطان کو فتح و کامرانی نصیب ہوئی، ایک طویل زمانہ کے بعد بیت المقدس پھر مسلمانوں کے قبضے میں آگیا جس کی وجہ سے عیسائی دنیا میں کھل بلی مچ گئی۔ پہلی جنگ عظیم اور خلافت عثمانیہ : پہلی جنگ عظیم سے پہلے فلسطین خلافتِ عثمانیہ کا ایک حصہ تھا، جرنل اللنبی کی سپہ سالاری میں انگریزی فوجیں بیت المقدس میں داخل ہوگئیں اور انگریزی سپہ سالار نے اعلان کردیا کہ صلیبی جنگ آج بھی جاری ہے، پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے عربوں سے آزاد مملکت کا وعدہ کیا تھا مگر یہ وعدہ سراسر فریب تھا، اسی زمانہ میں فرانس اور برطانیہ نے خفیہ معاہدہ کے تحت عرب علاقوں کو آپس میں تقسیم کرلیا۔ صیہونی عزائم اور سقوط بیت المقدس : فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کا قیام دنیا کی تاریخ کا ایک نہایت افسوسناک اور تایک باب ہے اور مسلمانوں کیلئے ایک رستا ہواناسور بھی، صیہونی درندوں نے فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ظلم و بربریت کی وہ داستان رقم کی ہے جس کا تصور بھی محال ہے، اور یہ کاروائی گزشتہ نصف صدی سے تاہنوز جاری ہے نومبر 1917 ء میں خلافت عثمانیہ (ترکی) کی شکست کے بعد برطانیہ کے خارجہ امور کے سکریڑی مسٹر بالفور (Mr Bolfore) نے حکومت برطانیہ کئ طرف سے ایک اعلان کیا جو اعلان بالفور کے نام سے مشہور ہے، اس اعلان کے مطابق صیہونی لیڈروں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ فلسطین میں یہودیوں کو ایک علیحدہ وطن دیا جائیگا، کونسل اوف لیگ آف نینز (اس وقت کی اقوام متحدہ) نے 22 جولائی 1920 ء کی فلسطین پر قانونی حکومت کا اختیار برطانیہ کو دیدیا اسی اختیار کے ساتھ یہودیوں نے دنیا کے کونے کونے سے فلسطین کی طرف نقل مکانی شروع کردی 1947 ء میں جرنل اسمبلی میں تقسیم فلسطین کی قرار دار منظور کی گئی 15 مئی 1947 ء میں برطانیہ نے مکمل طور پر دست برداری کا اعلان کردیا اور اسی تاریخ کو اسرائیلی ریاست کا اعلان کردیا گیا، اسی وقت سے اسرائیل اپنی توسیع پسند پالیسی پر گام زن ہے۔ 1948 ء میں جب یہودی ریاست قائم ہوئی تو اس کا رقبہ صرف پانچ ہزار تین سو مربع میل تھا اور اس کی حدود میں پانچ لاکھ یہودی اور پانچ لاکھ چھ ہزار عرب آباد تھے اب یہ رقبہ 33 ہزار مربع میل ہوگیا ہے، 19 اگست 1949 ء میں مسجد اقصیٰ میں آتش زنی کا واقعہ پیش آیا جس میں سلطان صلاح الدین ایوبی کا بنوایا ہوا پیش قیمت منبر بھی جل گیا تھا اس واقعہ نے پوری اسلامی دنیا میں غم و غصہ کی لہر دوڑا دی، آتش زنی کا یہ واقعہ مسجد اقصیٰ کو منہدم کرنے کی صیہونی سازش کا ایک حصہ تھا، اس کے بعد یہود نے جب مسجد اقصیٰ کی دیواروں کے قریب ہیکل سلیمانی کے آثار معلوم کرنے کیلئے کھدائی شروع کی تو ان شبہات کو مزید تقویت پہنچی کہ یہودی مسجد اقصیٰ کو کسی نہ کسی بہانہ سے گرا کر اس کی جگہ ہیکل سلیمانی ازسر نو تعمیر کرنا چاہتے ہیں جس کا نقشہ انجینیروں نے تیار کرلیا ہے۔
Top