Baseerat-e-Quran - Al-A'raaf : 163
وَ سْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ١ۘ اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ اِذْ تَاْتِیْهِمْ حِیْتَانُهُمْ یَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَّ یَوْمَ لَا یَسْبِتُوْنَ١ۙ لَا تَاْتِیْهِمْ١ۛۚ كَذٰلِكَ١ۛۚ نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ
وَسْئَلْهُمْ : اور پوچھو ان سے عَنِ : سے (متلع) الْقَرْيَةِ : بستی الَّتِيْ : وہ جو کہ كَانَتْ : تھی حَاضِرَةَ : سامنے (کنارے کی) الْبَحْرِ : دریا اِذْ : جب يَعْدُوْنَ : حد سے بڑھنے لگے فِي السَّبْتِ : ہفتہ میں اِذْ : جب تَاْتِيْهِمْ : ان کے سامنے آجائیں حِيْتَانُهُمْ : مچھلیاں ان کی يَوْمَ : دن سَبْتِهِمْ : ان کا سبت شُرَّعًا : کھلم کھلا (سامنے) وَّيَوْمَ : اور جس دن لَا يَسْبِتُوْنَ : سبت نہ ہوتا لَا تَاْتِيْهِمْ : وہ نہ آتی تھیں كَذٰلِكَ : اسی طرح نَبْلُوْهُمْ : ہم انہیں آزماتے تھے بِمَا : کیونکہ كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ : وہ نافرمانی کرتے تھے
اور (اے نبی ﷺ ان سے اس بستی والوں کے بارے میں پوچھئے جو ایک سمندر کے پاس تھی جب وہ ہفتہ کے دن کے بارے میں حد سے گزر گئے تھے۔ جب ہفتہ کا دن ہوتا تو مچھلیاں پانی کے اوپر آجاتیں اور جب ہفتہ کا دن نہ ہوتا تو وہ پانی کے اوپر نہ آتیں اس طرح ہم نے ان کو آزمایا وجہ یہ ہے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے۔
تشریح آیات نمبر 163 تا 166 بنی اسرائیل کی زندگی کے مختلف پہلوئو کا ذکر فرمایا جار ہا ہے اسی میں سے یہ ایک واقعہ ہے جو انہیں ایلہ کے مقام پر پیش آیا۔۔۔۔ واقعہ یہ تھا کہ بنی اسرائیل کا قبیلہ جو ایلہ میں آباد تھا اور کا گذر بسر مچھلیوں پر تھا۔ اس قوم کو آزمانے کے لئے کہا گیا کہ تم ہر روز مچھلی کا شکار کرسکتے ہو۔ صرف ہفتہ کے دن تمہیں شکار کرنے کی اجازت نہیں ہے توریت کی بعض آیات سے بھی اس طرف اشارے ملتے ہیں کہ اسی وجہ سے یہودیوں نے ہفتہ کے دن ہر طرح کے کام کاج کو اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا۔ ہفتہ کے دن شکار کی ممانعت ان کا محض امتحان تھا ان کو مزید آزمانے کے لیے اللہ نے یہ انتظام فرمایا کہ جب ہفتہ کا دن ہوتا جس دن شکار کرنا منع تھا تو تہہ کی مچھلیاں بھی پانی کے اوپر آجاتیں اور جب اتوار سے جمعہ تک شکار کرنے کی اجازت تھی تو اوپر کی مچھلیاں بھی پانی کی تہہ میں چلی جاتیں۔ بنی اسرائیل نے کچھ دن تو برداشت کیا ۔ پھر اس کے بعد انہوں نے حیلے بہانے کرنے شروع کردیئے۔ طریقہ یہ اختیار کیا کہ اس سمندر کے کنارے انہوں نے چھوٹے چھوٹے تالاب بنا کر انہیں چھوٹی چھوٹی نالیوں سے ملادیا جب ہفتہ کا دن آتا اور تہہ کی مچھلیاں اوپر آجاتیں تو وہ ان نالیوں کو کھول دیتے جن سے سمندر کا پانی مچھلیوں کے ساتھ ان تالابوں میں جمع ہوجاتا۔ اس طرح وہ بظاہر خود تو شکار نہیں کرتے تھے لیکن پانی کے ریلے کے ساتھ جو مچھلیاں ان کے تالابوں میں جمع ہوجاتیں ان کو اتوار کے دن خوب مزے لر لے کر کھاتے اور کہتے کہ ہم نے ہفتہ کے دن شکار نہیں کیا بلکہ یہ مچھلیاں تو پانی مین بہہ کر خود بخود ہمارے تالابوں میں آگئی ہیں۔ یہ بات ایسی تھی کہ وہ قوم اس امتحان میں فیل ہوگئی۔ ان کی چالا کی اللہ کو پسند نہیں آئی اور اللہ نے اس پوری نافرمان قوم کو شرف انسانیت سے محروم کر کے جانور یعنی بندروں کی شکل میں تبدیل کردیا جا چند روز زندہ رہ کر سب کے سب مر گئے۔ مفسرین کا خیال ہے کہ ان کو بندر نہیں بلکہ بندروں جیسی شکلیں دیدی گئی تھیں یعنی ان کے چہرے اس طرح پھول گئے تھے کہ جیسے بندروں کے پھولے ہوئے ہوتے ہیں بہر حال صحیح کیفیت کا علم تو اللہ کو ہے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ وہ قوم شرف انسانیت سے محروم کردی گئی تھی۔ جب ان کو ان کے نبی یہ بتاتے کہ دیکھو اگر تم اللہ کی نا فرنی نہ چھوڑی اور اسی طرح تاویلیں کر کرکے اللہ کو ناراض کرتے رہے تو تم پر عذاب آجائے گا اور تم اس سزا سے بچ نہ سکو گے۔ وہ کہتے کہ ہمیں ہمارے حال پر چھور دو ۔ جب تمہیں یقین ہے کہ ہم پر عذاب آجائے گا تو نصیحتیں کیوں کرتے ہو۔ ان کا جواب یہی ہوتا کہ ہم محض اس لئے کہہ رہے ہیں کہ کل اللہ کے ہاں جا کر اس کی معذرت تو کرلیں گے کہ اے اللہ ہم نے تو ان کو اچھی طرح سمجھایا تھا مگر یہ ماننے کے لئے تیار ہی نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ لوگ جو نصیحت کا حق ادا کرتے ہیں ان کو نجات ملتی ہے اور جو لوگ نافرمانی کرنے والے ہیں ان کو شدید ترین عذاب دیا جاتا ہے ۔ چنانچہ اللہ نے ہفتہ کے دن نافرمانی کرنے والوں کو عبرت ناک سزا دی اور جنہوں نے نصیحت کا حق ادا کردیا تھا اللہ نے ان کو نجات عطا فرمادی اور باقی ساری قوم کو بندر بنا کر ہلاک کردیا۔ ان آیات کا خلاصہ یہ ہے 2) جو لوگ گناہ کرتے ہوئے اس بات کا احساس رکھتے ہیں کہ ہم گناہ گار ہیں تو ان کو کبھی نہ کبھی توبہ کی توفیق مل جاتی ہے لیکن جو اپنے گناہوں کو کرنے میں مختلف تاویلیں کر کرے اپنے آپ کو مطمئن کرلیتے ہیں وہ اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے اور ان کو توبہ کی بھی توفیق نہیں ملتی ۔ 3) وہ لوگ جن کو اللہ نے نصیحت کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے اگر وہ اس فریضہ کو ادا کرتے رہے اور نصیحت کرتے رہے اور سننے والوں نے نصیحت حاصل نہ کی تو کم از کم اللہ کے ہاں وہ لوگ اس بات پر معذرت تو کرسکتے ہیں کہ ہم نے سمجھایا مگر وہ نہ سمجھے۔ 4) جب اللہ کی نافرمانی حد سے بڑھ جاتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ مختلف شکلوں میں اپنا عذاب مسلط کردیتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے فرمانوں کو شرف انسانیت سے محروم کر کرے جانوروں کی شکل اور مزاج میں ڈھال دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نافرمانی سے محفوظ فرمائے اور نیکیاں کرنے اور نیکیوں کو پھیلانے کی توفیق عطا فر مائے اور برے انجام سے محفوظ فرمائے۔ آمین
Top