Tafseer-e-Jalalain - Al-A'raaf : 91
فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَۚۖۛ
فَاَخَذَتْهُمُ : تو انہیں آلیا الرَّجْفَةُ : زلزلہ فَاَصْبَحُوْا : صبح کے وقت رہ گئے فِيْ : میں دَارِهِمْ : اپنے گھر جٰثِمِيْنَ : اوندھے پڑے
تو ان کو بھونجال نے آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے
فاخذتھم۔۔۔۔۔ جٰثمین، قرآن کریم میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کی امت کے عذاب کا تذکرہ تین مقامات پر آیا ہے، ایکؔ یہاں یعنی سورة اعراف میں زلزلہ کا ذکر ہے ایکؔ سورة ہود میں آسمانی چیخ کا ذکر ہے، اور ایکؔ سورة شعراء میں عذاب کے بادل کا ذکر ہے جس میں سے آگ برسی تھی، یہ تینوں عذاب ایک ساتھ اس طرح آئے کہ وہ لوگ اپنے گھروں میں تھے تو زلزلہ آیا جب گھروں سے باہر نکلے تو سخت گرمی معلوم ہوئی تو بادل کی شکل کا آسمان پر ایک ٹکڑا نظر آیا جس کا گھنا سایہ تھا پہلے ایک شخص اس سایہ میں گیا اس نے آکر سایہ کی ٹھنڈک کی تعریف کی، لوگ اس کی تعریف سن کر اس بادل کے سایہ میں چلے گئے اسی دوران آسمان سے ایک سخت چیخ کی آواز آئی اور پھر اسی بادل سے آگ برسی جس سے سب لوگ ہلاک ہوگئے۔ مدین کی تباہی مدتہائے دراز تک آس پاس کی قوموں میں ضرب المثل رہی ہے چناچہ زبور میں ایک جگہ آیا ہے کہ ” اے خدا، فلاں فلاں قوموں نے تیرے خلاف عہد کیا ہے لہٰذا تو انکے ساتھ وہی معاملہ کر جو تو نے مدیان کے ساتھ کیا تھا “ (73۔ 5 تا 9)
Top