Jawahir-ul-Quran - An-Nahl : 51
وَ قَالَ اللّٰهُ لَا تَتَّخِذُوْۤا اِلٰهَیْنِ اثْنَیْنِ١ۚ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ فَاِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
وَقَالَ : اور کہا اللّٰهُ : اللہ لَا تَتَّخِذُوْٓا : نہ تم بناؤ اِلٰهَيْنِ : دو معبود اثْنَيْنِ : دو اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں هُوَ : وہ اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : یکتا فَاِيَّايَ : پس مجھ ہی سے فَارْهَبُوْنِ : تم مجھ سے ڈرو
اور کہا ہے اللہ نے37 مت پکڑو معبود دو وہ معبود ایک ہی ہے سو مجھ سے ڈرو
37:۔ یہ دعوی توحید کا دوسری بار اعادہ اور دلائل ماقبل کا حاصل وثمرہ ہے یعنی جب تکوینی طور پر ساری کائنات اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجز و بےبس اور اس کے زیر تصرف و اختیار ہے تو پھر اللہ کے سوا کسی اور کو الہ مت بناؤ۔ الٰہ یعنی کارساز اور مالک و مختار وہی ایک اللہ ہے۔ اسی سے ڈرو اور مصائب و آفات میں صرف اسی کو پکارو ” اِلٰھَیْنِ “ کے بعد ” اِثْنَیْنِ “ اس لیے فرمایا کیونکہ جنس الٰہ کی نفی مقصود نہیں بلکہ تعداد آلہہ کی نفی مقصود ہے۔ ” وَ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ الخ “ یہ چوتھی دلیل سے متلعق ہے اور اسی کا حصہ ہے۔ ” وَاصِباً اي دائما “ (قرطبی) ۔ ربیع بن انس سے منقول ہے واصبا اي خالصا (روح) اور ” اَلدِّیْن “ کے معنی عبادت کے ہیں۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں الدین سے شہادت توحید اور تمام شرعی حدود و فرائض کی اقامت مراد ہے قال ابن جبیر العبادۃ وقال عکرمۃ شھادۃ ان لا الٰہ الا اللہ و اقامۃ الحدود والفرائض (بحر ج 5 ص 501) ۔ یعنی اللہ کے ساتھ کسی اور کو الوہیت میں مت شریک کرو اس کے سوا کوئی الوہیت کے لائق نہیں کیونکہ ساری کائنات کا مالک وہی ہے لہذا وہی سب کا کارساز ہے اور ہمیشہ سے وہی عبادت اور پکار کا مستحق ہے لہذا خالص اسی کی عبادت کرو، مشکلات میں صرف اسی کو پکارو اور اس کے تمام حدود و فرائض کی پورے خلوص کیساتھ پابندی کرو ” اَ فَغَیْرَ اللّٰهِ تَتَّقُوْنَ “ یہ زجر ہے۔ فرمایا تمہیں ڈرنا تو اللہ سے چاہئے جو سارے جہان کا مالک اور سب کا کارساز ہے مگر تم گیر اللہ سے ڈرتے ہو اور تم نے غیروں کو کارساز اور حاجت روا بنا رکھا ہے۔
Top