Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 51
وَ قَالَ اللّٰهُ لَا تَتَّخِذُوْۤا اِلٰهَیْنِ اثْنَیْنِ١ۚ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ فَاِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
وَقَالَ : اور کہا اللّٰهُ : اللہ لَا تَتَّخِذُوْٓا : نہ تم بناؤ اِلٰهَيْنِ : دو معبود اثْنَيْنِ : دو اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں هُوَ : وہ اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : یکتا فَاِيَّايَ : پس مجھ ہی سے فَارْهَبُوْنِ : تم مجھ سے ڈرو
اور اللہ نے فرمایا دو دو معبود اپنے لیے نہ بناؤ حقیقت یہ ہے کہ وہی ایک معبود ہے تو دیکھو صرف میں ہی ہوں پس صرف مجھ ہی سے ڈرو
تفسیر : دو معبود نہ بناؤ معبود ایک ہی ہے پس اسی سے ڈرو : 59۔ قرآن کریم جس طرح شرک کی اور ہر صورت کو مٹا رہا ہے اسی طرح ثنویت کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے اور دو خداؤں کی نفی سے تعداد کی نفی مطلوب ہے یعنی وہ ایک ہی ہے دو نہیں اور جب دو نہیں جو کثرت تعداد کا ادنی درجہ ہے تو اس سے زیادہ کیسے ہوسکتے ہیں اور پھر یہ بھی کہ توحید الہی کے کھلے اور روشن دلائل سن لینے کے بعد کسی دوسرے کو خدا سمجھنا انتہائی حماقت ہے جہ جائیکہ سینکڑوں معبود گھڑ لئے جائیں اور ان کی پوجا کی جائے ، اللہ تعالیٰ سے ڈرو کہ واقعی اس کی پکڑ بہت سخت ہے ، دوسری جگہ اس طرح ارشاد فرمایا کہ ” اے پیغمبر اسلام “ ان سے کہو اگر اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہوتے جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں تو وہ مالک عرش کے مقام پر پہنچنے کی ضرور کوشش کرتے ۔ “ (بنی اسرائیل 17 : 142) مطلب یہ ہے کہ اگر ایک سے زیادہ معبود ہوتے تو وہ سارے مالک عرش بننے کی کوشش کرتے اس لئے کہ چند ہستیوں کا خدائی میں شریک ہونا دو حال سے خالی نہیں ہو سکتا یا تو وہ اپنی جگہ مستقل خدا ہوں یا ان میں سے ایک اصل خدا ہو اور باقی اسی کے بندے ہوں جنہیں اس نے کچھ خدائی اختیارات دے رکھے ہوں پہلی صورت میں یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ یہ سب آزاد ‘ خود مختار خدا ہمیشہ ہر معاملے میں ایک دوسرے کے ارادے سے موافقت کرکے اس اتھاہ کائنات کے نظم ونسق کو اتنی مکمل ہم آہنگی ‘ یکسانیت اور تناسب و توازن کے ساتھ چلا سکتے ناگزیر تھا کہ ان کے منصوبوں اور ارادوں میں قدم قدم پر تصادم ہوتا اور ایک اپنی خدائی دوسرے خداؤں کی موافقت کے بغیر چلتی نہ دیکھ کر یہ کوشش کرتا کہ وہ تنہا ساری کائنات کا مالک بن جائے رہی دوسری صورت تو بندے کا ظرف خدائی اختیارات تو درکنار خدائی کے ذرا سے وہم اور شائبے کا تحمل بھی نہیں کرسکتا ، اگر کہیں کسی مخلوق کی طرف ذرا سی خدائی بھی منتقل کردی جائے تو پھٹ پڑتا ‘ چند لمحوں کے لئے بھی بندہ بن کر رہنے پر راضی نہ ہوتا اور فورا ہی خداوند عالم بن جانے کی فکر شروع کردیتا اور پھر اس کا جو نتیجہ نکلتا وہ ظاہر ہی ہے کیا ہوتا ؟ ذرا غور کرو کہ جس کائنات میں گہیوں کا دانہ اور گھاس کا ایک تنکا بھی اس وقت تک پیدا نہ ہوتا ہو جب تک کہ زمین و آسمان کی ساری قوتیں مل کر اس کے لئے کام نہ کریں اس کے متعلق ایک انتہا درجے کا جاہل اور کند زہن آدمی ہی یہ تصور کرسکتا ہے کہ اس کی فرمانروائی ایک سے زیادہ خود مختار یا نیم خود مختار خدا کر رہے ہوں گے ورنہ جس نے کچھ بھی اس نظام کے مزاج اور طبیعت کو سمجھنے کی کوشش کی ہو وہ تو اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ خدائی بالکل ایک ہی کی ہے اور اس کے ساتھ کسی درجہ میں بھی کسی اور کے شریک ہونے کا قطعی امکان نہیں ہے ، اس لئے اس جگہ فرمایا کہ ” دیکھو دو دو معبود اپنے لئے نہ بناؤ حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہی ایک معبود ہے تو وہ میں ہی ہوں پس صرف مجھ سے ڈرو۔ “
Top