Jawahir-ul-Quran - An-Naml : 41
قَالَ نَكِّرُوْا لَهَا عَرْشَهَا نَنْظُرْ اَتَهْتَدِیْۤ اَمْ تَكُوْنُ مِنَ الَّذِیْنَ لَا یَهْتَدُوْنَ
قَالَ : اس نے کہا نَكِّرُوْا : وضع بدل دو لَهَا : اس کے لیے عَرْشَهَا : اس کا تخت نَنْظُرْ : ہم دیکھیں اَتَهْتَدِيْٓ : آیا وہ راہ پاتی (سمجھ جاتی) ہے اَمْ تَكُوْنُ : یا ہوتی ہے مِنَ : سے الَّذِيْنَ : جو لوگ لَا يَهْتَدُوْنَ : راہ نہیں پاتے (نہیں سمجھتے)
کہا روپ بدل دکھلاؤ36 اس عورت کے آگے اس کے تخت کا ہم دیکھیں سمجھ پاتی ہے یا ان لوگوں میں ہوتی ہے جن کو سمجھ نہیں
36:۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اس تخت میں کچھ جزوی تبدیلیاں کر کے اس کی شکل بدل دو تاکہ بلقیس کی عقل و فراست کا امتحان کریں آیا وہ اسے پہچان لیتی ہے یا نہیں۔ فلما جاءت الخ، جب بلقیس پہنچ گئی تو اس سے پوچھا گیا کیا تمہارا تخت بھی ایسا ہی ہے ؟ سوال میں یہ نہیں کہا گیا، اھکذا عرشک، کیا یہ تمہارا تخت ہے ؟ تاکہ یہ سوال اور پیچیدہ ہوجائے۔ قالت کانہ ھو، بلقیس نے نہایت دانشمندانہ جواب دیا کہ بالکل ویسا ہی ہے۔ یہ نہیں کہا کہ بالکل وہی ہے یا وہ نہیں ہے کیونکہ دونوں جواب سوال کے مطابق نہیں تھے۔ واوتینا العلم الخ، یہ بلقیس کا کلام ہے، من قبلھا کی ضمیر سے احضار عرش کا معجزہ مراد ہے۔ یعنی اس سے پہلے ہدہد کے ذریعہ خط ملنے سے اور اپنے سفیروں سے آپ کے تفصیلی حالات سن کر ہی ہم اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر اور آپ کی نبوت پر ایمان لا چکے تھے اور آپ کی اطاعت قبول کرچکے تھے اب اس معجزے کے اظہار کی کیا ضرورت تھی۔ من تتمۃ کلامھا علی اما اختارہ جمع من المفسرین۔ واوتینا العلم بکمال قدرۃ اللہ تعالیٰ وصحۃ نبوتک من قبل ھذہ المعجزۃ بما شاھدناہ من امر الھدھد وما سمعناہ من رسلنا الیک من الایات الدالۃ علی ذلک وکنا مومنین من ذلک الوقت فلا حاجۃ الی اظھار ھذہ المعجزۃ (روح ج 19 ص 207) ۔
Top